سید مخدوم علی بن عثمان الہجویری حضرت داتا گنج بخشؒ

خالد بہزاد ہاشمی
مرکز تجلیات، سید مخدوم، محافظ لاہور، منبع فیوض و برکات حضرت سید علی بن عثمان الہجویری المعروف داتا گنج بخش کے 980 ویںسالانہ عرس مبارک کی تقریبات ان کے نام سے معروف و مشہور ہونے والے شہر داتا کی نگری میں باتزک و احتشام روایتی جوش و خروش، عقیدت و احترام کے ساتھ شروع ہو چکی ہیں۔ مزار پر انوار بقہ نور بنا ہوا ہے جبکہ گرد و نواح کے علاقے میں میلے کا سماں ہے اور ملک بھر سے زائرین اور عقیدت مند نذرانہ پیش کرنے کیلئے حاضر ہو رہے ہیں جبکہ بیرون ملک سے بھی وفود کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ حسب روایت محکمہ اوقات کے زیر اہتمام سہ روزہ عالمی تصوف کانفرنس کے بعد دیگر روحانی محافل کا انعقاد بھی جاری ہے حضرت داتا گنج بخش کا عرس جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا عرس ہے جس میں 25 سے 30 لاکھ افراد  شرکت کرتے رہے ہیں اور پاکستان بننے سے قبل غیر مسلم بھی بڑی تعداد میں عرس کی تقریبات میں شرکت کرنا اپنے لئے سعادت سمجھتے اور امرتسر سے تو لوگ سائیکلوں پر اور پیدل داتا صاحب کے عرس پر حاضری دیتے۔ 
لاہور ایک ہزار سال سے زائد عرصہ سے اولیاء کرام اور صوفیاء کرام کا مسکن رہا ہے، اس سرزمین پر یوں تو سینکڑوں اولیاء کرام آسودہ خواب ہیں لیکن جو عزت اور تکریم حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے حصہ میں آئی اس سے دیگر محروم رہے جب آپ لاہور میں جھنڈا اٹھائے داخل ہوئے تو شہر کے شمال رُخ راوی کے نزدیک رات بسر کی۔ اس سوقت لاہور کے مغربی بیرونی حصہ میں ہندوئوں کا ایک متبرک مندر تھا اور یہاں نزدیک سے راوی بھی اپنی روانی کے ساتھ محو خرام تھا۔ حضرت داتا صاحب نے اس مندر کے نزدیک اسلامی جھنڈا نصب کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ اب انشاء اللہ یہ جھنڈا قائم اور لاہور پر اسی طرح سایہ فگن رہے گا۔ آجکل بھی اس جگہ سنگ مر مر کی پانی کی ایک سبیل بنی ہوئی ہے۔ بقول شہزادہ داراشکوہ جیسے ہی مخدوم صاحب نے لاہور کو اپنے وجود مبارک سے رونق بخشی تو گردونواح کے تمام لوگ آپ کے معتقد اور مرید ہو گئے اور پھر حضرت صاحب نے ایک عالم کو چھوڑ کر لاہور کا انتخاب کچھ یوں ہی نہیں کیا تھا۔  قدیم تواریح کے مطالعہ سے آپ کا لاہور میں قیام تیس سال سے زائد بنتا ہے۔
آپ کا سلسلہ نسب آٹھ واسطوں سے حضرت شیر خدا، حضرت علی المرتضیٰ سے ملتا ہے۔ آپ ہاشمی سید اور حسنی ہیں۔ غرنی میں آپ کا خاندان بہت عزت و توقیر سے دیکھا جاتا تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ عابدہ زاہدہ خاتون تھیں اور آپ کے ماموں تاج الاولیاء کے لقب سے مشہور تھے۔ مغل شہزادہ داراشکوہ جب اپنے والد شہنشاہ شاہ جہاں کے ہمراہ افغانستان گیا تو اس نے تاج الاولیاء کے مزار پر بھی حاضری دی تھی۔ آپ نے حضرت شیخ ابوالفضل محمد بن حسن الختلی سے فیض حاصل کیا جو شیخ ابوالحسن مصری کے مرید اور حضرت جنید بغدادی کے متعبین میں سے تھے۔ آپ کے پیرومرشد ساٹھ سال تک پہاڑوں میں گوشہ نشین رہ کر مصروف عبادت رہے تھے
 حضرت داتا صاحب اپنے مرشد کامل کے وصال کا حال لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حضرت ختلی کے وصال کے وقت آپ کا سر مبارک میری گود میں تھا۔ اس روز ہم’’بیت الجن‘‘ میں یہ ایک گائوں ہے جو دمشق اور بانیارود کے مابین ایک گھاٹی پر آباد ہے۔ اپنے ایک پیر بھائی کی بابت دل میں رنجیدہ تھا جیسا کہ عام زندگی میں لوگ ایک دوسرے سے ہو جایا کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف مجھے اپنے پیر و مرشد کی جدائی کا تصور بھی غمگین کر رہا تھا۔ اس ماحول میں جو آخری نصیحت میرے شیخ نے مجھے فرمائی وہ یہ تھی۔’’بیٹے میں تجھے عقیدے کا ایک مسئلہ بتاتا ہوں، اگر تو اپنے آپ کو اس پر چلائے گا تو درد و تکلیف سے مامون رہے گا، ہر جگہ ہر حال میں نیک ہو یا بد، اللہ ہی پیدا کرتا ہے، مناسب یہی ہے کہ اس کے اس فعل پر نہ جھگڑا کر اور نہ دل میں رنج و غم کو جگہ دے۔‘‘
ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کے مطابق آپ460ھ کے بعد لاہور تشریف لائے۔ آپ سے قبل خطہ لاہور حضرت سید اسماعیل بخاری (ہال روڈ) اور حضرت شاہ حسین زنجانی کے روحانی فیض سے منور تھا۔ خواجہ خواجگان، ہندالولی، سلطان الہند، خواجہ غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری جب آپ کی بارگاہ میں فروکش ہوئے تو یہاں چالیس روز تک چلہ کشی فرمائی اور روحانی فیوض و برکات سے اپنے دامنِ معطر کو مزید مُشک بار کیا اور جاتے ہوئے وہ مشہور عالم شعر کہا جو آپ کے آستانہ مبارک پر رقم ہے:۔
 گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نُورِ خدا
 ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما
 حضرت خواجہ غریب نواز نے آپ کے پیر بھائی حضرت شاہ حسین زنجانی کے مزار پر بھی چلہ کشی فرمائی، یوں آپ کے مرشد حضرت شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلی کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ آپ کے دو قابلِ فخر مریدوں کے مزارت مبارکہ پر حضرت خواجہ غریب نواز نے چلہ کشی فرمائی۔
حضرت خواجہ غریب نواز اور ان کے محبوب خلیفہ حضرت خواجہ بختیار کاکی نے حضرت شیخ العالم شیخ کبیر، حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کو روحانی فیض اور خلافت عطا فرمائی تھی اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر نے محبوب الٰہی سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی سر مبارک پر دلی کا روحانی تاج رکھا تھا۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کی حضرت داتا گنج بخش سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے پورے لاہور میں آپ کے آستانہ مبارک کے نزدیک بلند جگہ پر قیام فرمایا اور چلہ کشی کی جو ٹبہ بابا فرید کہلاتا ہے۔ آپ یہاں سے گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے آپ کی بارگاہ میں حاضری دیتے۔
آپ کی تصنیف کشف المحجوب کو شہر آفاق مقبولیت حاصل ہوئی۔ حضرت سلطان المشائخ، محبوب الٰہی، سلطان جی، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں کہ جس کا کوئی پیرومرشد نہ ہو اسے کشف المحجوب کے حوالے سے خیروبرکت مل جائے گی۔آپ کے وصال کے وقت حضرت شیخ ہندی نے اپنے ہاتھ سے لحد مبارک اور چبوترا تیار کیا۔ بعدازاں ظہیر الدین ابراہیم غزنوی(492-451ھ) نے آپ کی قبر مبارک بنوائی۔ مغل اعظم جلال الدین اکبر نے آٹھ پہلو مقبرہ، مزار کے گرد چار دیواری اور بڑے دالان تعمیر کرائے، رنجیت سنگھ اس کے فیل بان میاں عرض خان اور اس کی ملکہ مائی موراں سرکار نے بھی یہاں بہت سی تعمیرات کرائیں۔ نور محمد سادھو نے لکڑی کی چھت کی جگہ پختہ گنبد تعمیر کرایا۔1940ء میں مولوی فیروزالدین(فیروز سنز) نے لکڑی کی جالیوں کی جگہ سنگِ مر مر کی جالیاں لگوائیں اور بیرونی دیواروں پر سنگِ مرمر نصب کرایا اور مزار کے گنبد کو سبز ٹائلوں سے مزین کیا۔ 
مزار پر میلہ رام کے بیٹے نے بجلی لگوائی
لاہور میں بجلی 1921-22ء میں آئی سب سے پہلے سٹیشن اور ٹولنٹن مارکیٹ میں بلب لگے۔ رائے بہادر میلہ رام اور ان کے بیٹے رائے بہادر رام سرن داس کا شمار شہر کے متمول ترین رؤسا میں ہوتا تھا اور وہ بھی سرگنگارام کی طرح رفاحی کاموں میں حصہ لیتے تھے۔ انہوں نے لاہور میں کئی خیراتی ادارے اور سرائے بھی بنوائیں جن میں سٹیشن کے قریب سرائے میلہ رام بہت مشہور تھی۔ رائے بہادر میلہ رام کی رہائش بھاٹی گیٹ کے نزدیک سرخ اینٹوں سے بنی کوٹھی (حزب الاحناف) میں تھی اور ان کی میلہ رام ٹیکسٹائل مل داتا دربار کے باہر اسلامی پبلشنگ  اداروں سے لے کر کربلا گامے شاہ اور اس سے ملحقہ عقبی حصہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ میلہ رام نے بھی بجلی لگوائی تو اپنا گھر اور ٹیکسٹائل ملز منور کرنے سے قبل حضرت داتا گنج بخش کے مزار مبارک پر پہلا بلب لگوایا یہ تھی غیر مسلموں کی محافظِ لاہور حضرت داتا گنج بخش سے عقیدت۔
ہزار سال سے جاری خطے کا 
سب سے بڑا لنگر
حضرت داتا گنج بخش نے جو لنگر اپنی حیات مبارکہ میں ایک ہزار سال سے زائد قبل شروع کیا تھا وہ آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے، عام دنوں میں ہزاروں اور عرس کے ایام میں روزانہ لاکھوں زائرین اس لنگر سے مسفید ہوتے ہیں۔ یہاں ہزاروں افراد کا روزگار اس لنگر سے وابستہ ہے جبکہ زائرین ان سے بڑی تعداد میں انواع و اقسام کے تیار پکوان، مشروبات مٹھائیاں زائرین میں تقسیم کرنے کیلئے لاتے ہیں۔ یہ پاکستان کی وہ سب سے عظیم اور سب سے بڑی درگاہ ہے جس کی عظمت سات آسمانوں سے بھی بلند ہے اور یہاں غوث، قطب اور ابدال تشریف لاتے ہیں۔ درگاہ شریف کے کونوں، کھدروں، برآمدوں، دالانوں، صحن میں کئی درویش ذوق و شوق سے عبادت میں مصروف یا عام زائرین کے روپ میں نظر آتے ہیں، لوگوں سے عقیدت و احترام سے جھک کر سلام اور دعا کرنی چاہیے اور ان کی دعائیں اللہ تبارک تعالیٰ کی بارگاہ میں یقینا قبول و مستجاب ہوتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن