ٹھوک بجا کردیکھیں

ویسے تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ امیر وہ ہے جس کے دوست زیادہ ہیں،غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ غربت اور امارت کا تعلق معاشی ہے اور پھر معاشی حالات اچھے ہوں تو دوست بھی زیادہ بن جاتے ہیں اور حالات خراب ہوں تو اپنے بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ پھر پہلے والی باتیں بھی درست ہوہی جاتی ہیں۔ معیشت دانوں نے تو امیر اور غریب کا فرق بتانے کے لئے ایک خط غربت بنا رکھا ہے یعنی جو اتنا کمالیتا ہے وہ امیر اور جو اس سے کم کماتا ہے وہ غریب۔ لیکن کون اس لکیر کو ڈھونڈتا پھرے۔ تو سادہ سی بات ہے اگر آپ کو مہنگائی مہنگی پڑتی ہے تو آپ غریب ہیں اور اگر مہنگائی کوئی جھٹکا نہیں دیتی تو آپ ماشااللہ  امیر انسان ہیں۔
 غریب کیلئے تو ہر دور میں مہنگائی ہوتی ہے لیکن اس بار مہنگائی نے ان کو بھی جھنجھوڑ ڈالا جن پر پہلے اس کا زیادہ اثر نہیں ہوتا تھا۔ ہمارا ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سیاست نے ہمیں شدید قسم کی تقسیم کا شکار کررکھا ہے۔ ہم عوام نہیں رہے بلکہ جیالے ،متوالے اور ٹائیگر بن چکے ہیں۔ مہنگائی کا رونا روئیں گے تو ساتھ ہمیں کوئی ایسا بھی چاہئے جسے اس مہنگائی کیلئے کوسنے دے سکیں۔ برا بھلا کہہ سکیں۔ تو یہاں پھر ہمارے اندر بسی یا بسائی گئی سیاست باہر آجاتی ہے اور تمام ذمہ داری ،طعنہ زنی ،گالم گلوچ اس سیاسی جماعت یا رہنما کیلئے ہوتی ہے جو ہمارے لیڈر کا مخالف ہے۔ 
حقیقت پر مبنی بات بتائی جائے تو صرف اس صورت میں سنیں گے کہ وہ ہمارے موقف کے مطابق ہو ورنہ بتانے والے پر بھی مخالف پارٹی کا بندہ ہونے کا الزام دھر کر غصہ نکال دیں گے۔ مسئلہ کیا ہے ،کیوں ہے ،ہم نہیں سمجھتے کیوں کہ ہم سمجھنا ہی نہیں چاہتے اور ہمارے یہی سیاسی جذبات سیاسی جماعتوں کو مہنگائی جیسے مسئلے پر بھی ‘‘کھیلنے‘‘کا موقع دیتے ہیں۔ 
سادہ سی بات ہے یہ بجلی کے بھاری بل،مہنگائی یہ مسئلہ نہ راتوں رات پیدا ہوا اور نہ راتوں رات حل ہوسکتا ہے ، کسی ایک جماعت نے یہ مسئلہ پیدا کیا نہ کوئی ایک جماعت اسے حل کرسکتی ہے یقین جانیں اگر یہ کسی سیاسی جماعت کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ یکدم سب کچھ سستا کرکے اپنی اگلی حکومت پکی کرلیتی۔ ویسے تو مہنگائی کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں لیکن اس وقت ہمارے ملک میں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ ہماری کرنسی کی قدر میں بے پناہ کمی ہے جس کا اثر پیٹرول سمیت ہر اس چیز پر پڑتا ہے جو ہم باہر سے منگواتے ہیں ،روپے کی قدر میں کمی کی وجہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر یعنی حکومت کے پاس ڈالرز کی کمی ہے اور اس کمی کی وجہ ہمارا تجارتی خسارہ ہے۔ یعنی جتنا ہم دنیا کو بیچتے ہیں اس سے زیادہ ان سیخریدتے ہیں۔ جتنی اشیا ہم باہر بھیجتے ہیں اس سے زیادہ باہر سے منگوانا پڑتی ہیں اور یہ سارا لین دین ڈالرز میں ہوتا ہے۔ یعنی ہمارے پاس سے ڈالر جاتے زیادہ ہیں اور آتے کم ہیں جس سے ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھتی ہے اور ساتھ اس کی قیمت بھی۔ اور پھر ان بھاری قرضوں کی ادائیگیاں بھی ڈالرز میں ہی ہوتی ہیں جو ہماری تمام حکومتیں لیتی رہی ہیں۔ 
دوسرا بلکہ سب سے بڑا مسئلہ جس کا حل ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے وہ ہیں ہماری شاہ خرچیاں۔ بڑی بڑی سرکاری گاڑیاں، پروٹوکول کے بڑے بڑے قافلے ،مفت کا ہیٹرول اور کروڑوں یونٹ بجلی کے فری یونٹس کی سہولیات۔ اور یہ جو استعمال کررہے ہیں وہ اس پیٹرول اور بجلی کی قیمت ادا کرنے کی استطاعت بھی رکھتے ہیں ،لیکن ان کی اس مفت بری کا بوجھ باقی عوام کو اٹھانا پڑتا ہے،اوپر سے اس ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کے نام پر جس قسم کے غیر منصفانہ ٹیکس لگا دئیے جاتے ہیں،پھر نااہلی ،کرپشن ،چوری، وہ الگ فسانہ ہے۔ ان سب مسئلوں کا حل معاشی اور انتظامی اصلاحات ہیں جو اکثر سیاسی جماعتوں کے منشور میں کسی نہ کسی طرح شامل بھی ہوتی ہیں لیکن ہو نہیں پاتیں۔ 
وجہ کیا ہے یہ بھی سادہ سی بات ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک میں گزشتہ دو دہائیوں میں دو وزرائے اعظم آئے اور حکومتیں بلاتعطل چلتی رہیں، آج وہ چاند پر پہنچ چکے ہیں اور ہمارے یہاں اسی عرصے میں نگرانوں کو ملا کر بارہ وزرائے اعظم آئے یعنی منتخب نو وزرائے اعظم کی اوسط مدت محض دو سال ہی بن پاتی ہے۔ اس سیاسی عدم استحکام کے ذمہ دار جو ہیں وہ بھی ملک کو اس حالت زار تک پہنچانے کے جرم میں برابر بلکہ برابر سے زیادہ کے حصہ دار ہیں لیکن ہم یہ سارا ملبہ سیاستدانوں اور وہ بھی اپنے مخالفوں پر ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں۔ تو عوام کو جیالے متوالے یا کھلاڑی کی تو تو میں میں سے نکلنا ہوگا۔ کیا ٹھیک ہے ، کیا غلط ہے ، کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے،کون ٹھیک کرسکتا ہے اور کون ٹھیک ہونے نہیں دیتا۔ اس کو ٹھوک بجا کر دیکھنا ہوگا لیکن ساتھ ہی ان کو بھی پہچاننا ہوگا جو ملک کو اس حال تک پہنچانے کے اصل کردار ہیں۔ سامنے بھی اور پس پردہ بھی۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن