پردیس میں تارکین وطن کے لئے سب سے مشکل کام "سر"چھپانے کے لئے چھت اور دو وقت کا کھانا ہوتا ہے۔ رہائش اور کھانا دو ایسی چیزیں ہیں جس کا سامنا غریب ممالک سے دوسروں ملکوں میں جانے والے ہر تارکِ وطن کو کرنا پڑتا ہے۔ یورپ سے امریکہ اور مشرق وسطیٰ سے مشرق بعید میں روزگار اور بہتر مستقبل کی تلاش میں سرگرداں ہر پردیسی کو کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی فاقے کاٹنے ہی پڑتے ہیں اور ان کی اکثریت کو کبھی فٹ پاتھوں پر کبھی بس اسٹیشنوں پر سو کر راتیں گزارنی ہی پڑتی ہیں۔ روزگار کی تلاش میں دوسرے ممالک میں جانے والوں کو اپنے اس شوق یا مجبوری کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے اور کئی دفعہ تو یہ قیمت اتنی بھاری ہوتی ہے کہ انہیں جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ کوئی غیر قانونی طور پر کسی ملک کی سرحد پار کرتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے، کوئی جنگل میں بھوک پیاس کی شدت سے جان کی بازی ہار جاتا ہے تو کسی کو سمندر کی بے رحم لہریں نگل لیتی ہیں۔
ابھی حال ہی میں آپ نے دیکھا کہ لیبیا سے غیر قانونی تارکین وطن کی کشتیاں اٹلی جاتے ہوئے ڈوب گئیں اور یورپ جانے کے خواہشمند اپنے خوابوں سمیت بپھری لہروں کی نذر ہو گئے۔ یہاں میں ایک ہی بات کہوں گا کہ اپنے بہتر مستقبل کے لئے ہجرت کرنا برا نہیں لیکن غیر قانونی راستے اختیار کرنا واقعی برا ہے۔ آپ دنیا میں کہیں بھی جانا چاہتے ہیں، ضرور جائیں لیکن کوشش کریں کہ قانونی راستہ اختیار کریں۔ اس میں آپ کی بقائہے۔
فرض کریں، ساری صعوبتیں اٹھا کر آپ غیر قانونی طور پر اپنے پسندیدہ ملک میں پہنچ بھی جاتے ہیں تو بھی آپ کی مشکلات ختم نہیں ہوتیں بلکہ "اصل کہانی" تو یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ نہ کوئی روزگار، نہ کھانے کے پیسے نہ رہنے کی جگہ، بس پکڑے جانے کا خوف۔ غرض ایک سے ایک مشکل ہے۔ پردیس میں اگر آپ بے سہارا و مجبور ہیں تو کوئی آپ کو کھانا بھی نہیں پوچھے گا۔ بیمار ہیں تو کوئی دوا بھی نہیں لے کر دے گا۔ میں نے ساری دنیا کا سفر کیا ہے اور ہر جگہ میں نے یہی حالات دیکھے ہیں۔ تارکین وطن کی بس مشکلات، مصیبتیں اور دکھ ہی نظر آئے۔ لیکن اس دفعہ مشرق بعید کے ملک ’’ملائشیائ‘‘ میں تارکین وطن کے لئے ایک ’’امید‘‘ کی شمع روشن دیکھی۔ ملائشیاء کے شہر کوالالمپور میں پاکستانی شہری، امیر جماعت تحریک لبیک ملائشیاء ، محمد سجاد خان سیفی نے بے سہارا و بے روزگار لوگوں کے لئے’’پناہ گاہیں‘‘ قائم کر رکھی ہیں۔ بھلے ہی آپ کا تعلق کسی بھی ملک، مذہب یا فرقے سے ہو اگر آپ کے پاس رہائش نہیں ہے یا کھانا نہیں ہے تو آپ بلاجھجک ان پناہ گاہوں میں مفت رہائش اختیار کر سکتے ہیں جہاں پناہ گزینوں میں تین وقت کا کھانا بھی مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ میں نے سجاد سیفی کی ان پناہ گاہوں میں پاکستانیوں کے علاوہ، بھارتی اور بنگالی باشندوں کو بھی رہتے ہوئے دیکھا۔ ان پناہ گاہوں میں چونکہ کوئی آپ کا مذہب نہیں پوچھتا لہذٰا یہاں مسلمان، سکھ عیسائی اور ہندو سب رہ رہے ہیں۔
لبیک ملائشیاء کی طرف سے یہاں ایک مسجد بھی بنائی گئی ہے جہاں پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں ایا ہے کہ کئی لوگ مفت رہائش اور کھانا ملنے کے بعد یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ جیسے یہی ان کا مقصد حیات تھا اور کوئی کام دھندہ ڈھونڈنے کی بجائے وہیں پڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یاد رکھئے ایسا کرنے والے لوگ کسی دوسرے ضرورت مند کا حق مارتے ہیں۔ آپ اگر ضرورت مند ہیں تو ان پناہ گاہوں میں ضرور رہائش اختیار کریں لیکن اس کو اپنا مستقل گھر نہ بنا لیجئے۔ سونے کی جگہ اور پیٹ بھرنے کو کھانا مل جانے کے بعد ایک اچھے پناہ گزیں کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جلد از جلد اپنے لئے روزگار ڈھونڈے اور نئے آنے والے ضرورت مند کے لئے جگہ خالی کر دے۔ پہلے پہل یہاں لوگ مہینوں مفت رہتے تھے لیکن اب پناہ گاہ کی انتظامیہ نے مفت رہائش اور کھانے کے دورانیے کو دو ہفتے تک محدود کر دیا ہے۔ دو ایسے ہفتے جن میں آپ کو رہنے اور کھانے کی فکر نہ ہو، اتنا وقت بہت ہوتا ہے کہ کوئی بھی محنتی شخص اپنے لئے کام ڈھونڈ سکتا ہے۔ یہ ’’پناہ گاہیں ‘‘ لبیک ملائشیاء کے امیر سجاد سیفی کے خوابوں کی تعبیر ہے یہ پناہ گاہیں، حمزہ، عثمان، اویس اور تصدق سمیت کتنے ہی گمنام مجاہدوں کی محنتوں کا ثمر ہے۔ سجاد سیفی اور ان کی ٹیم کا مصمم ارادہ ہے کہ جلد اسی طرح کی پناہ گاہیں ملائشیاء کے دوسرے شہروں میں بھی قائم کی جائیں گی۔
جب اپنا قافلہ عزم و یقیں سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
جو آسمانوں میں بانٹے گا روشنی اپنی
وہ آفتاب اسی سرزمیں سے نکلے گا
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقیں ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا
٭…٭…٭