اسلام آباد (عترت جعفری) ملک میں نگران حکومت کی تشکیل اور اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کے درمیان اندرون خانہ جاری اختلاف رائے اب کھل کر سامنے آ گیا ہے اور چینی کے بحران نے اسے نمایاں کر دیا ہے، ڈالر کے بعد اب چینی کے نرخ غیر معمولی طور پر بڑھ رہے ہیں اور یہ اس حقیقت کے باوجود ہو رہا ہے کہ ملک کے اندر چینی کے وافر سٹاک موجود ہیں، ملک کے اندر موجود مافیا اب بیرون ملک سے چینی کی درآمد کی اجازت لینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے تاکہ عالمی مارکیٹ میں 720 ڈالر فی میٹرک ٹن چینی درآمد کرنے کی اجازت لی جا سکے، یہ درآمدی چینی ملک کے اندر آئے اور ملک کے اندر موجود چینی کے ریٹ کو مزید بڑھانے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات کی تحقیقات کی بھی ضرورت ہے کہ گزشتہ مہینوں میں کتنی چینی کس ملک میں کس ریٹ پر گئی اور کس ذریعے سے برآمد کی گئی اور اس کا خریدار کون تھا۔ گزشتہ روز سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کی طرف سے چینی کے بحران کو پیپلز پارٹی کے کھاتے میں ڈالنے کے بارے میں بیان سامنے آنے کے بعد پیپلز پارٹی نے اس کے خلاف رد عمل ظاہر کیا۔ اس پارٹی کے اندرون ذرائع یہ بتا رہے ہیں کہ نگران حکومتوں کی تشکیل سے پیپلز پارٹی کے اندر پہلے ہی سے مسلم لیگ نون کے بارے میں ناراضگی موجود تھی، یہی وجہ تھی کہ اس کی طرف سے 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کا مطالبہ شدت سے کیا گیا، اور اب پنجاب کو سیاست کا مرکز بنانے کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان آئندہ دنوں میں یہ تلخیاں مزید بڑھیں گی۔ نواز شریف کی وطن واپسی کا اصل پروگرام کیا ہے، پارٹی کو شک ہے کہ میاں نواز شریف کی واپسی جلد ممکن نہیں ہے۔ سابق وزیر تجارت اور پی پی رہنما نوید قمر نے کہا کہ چینی برآمد کرنے کی ذمہ داری کسی ایک وزارت پر نہیں ڈالی جاسکتی کیونکہ یہ فیصلہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کیا اور کابینہ نے اس کی منظوری دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جتنی چینی برآمد کرنے کی اجازت دی اس سے تین گنا زیادہ سٹاک موجود تھا۔ سینیٹر تاج حیدر نے ٹویٹ کیا کہ نویدقمر نے اڑھائی لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی، اس کا مقصد فارن ایکس چینج کے کام میں اسحاق ڈار کی مدد کرنا تھا۔ سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے 1.4ملین ٹن چینی سمگل کرنے کی اجازت دی، سمگروں نے اس سے ڈالر کمائے، جبکہ احسن اقبال نوید قمر کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔