پاکستان کی بقاء و سلامتی کے تحفظ کے تقاضے

اسے میری کمزوری‘ خامی‘ خوبی یا پھر میرا جذبہ حب الوطنی کہہ لیں کہ اپنے مخصوص پڑھے لکھے گورے دوستوں کی انٹلیکچوئل محافل میں جب بھی جاتا ہوں‘ روانگی سے قبل حالات حاضرہ کے دقیق پہلوئوں کے بارے میں اچھی خاصی تیاری کو اپنی عادت کا میں نے حصہ بنا رکھا ہے۔ یہ اس لئے بھی کہ ان دوستوں کی گفتگو کا آغاز تو حالات حاضرہ سے ہوتا ہے مگر چند ہی ثانیوں بعد ان کی ’’سیاسی سوئی‘‘ غریب‘ غیرترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے گرد گھومتی ہوئی وطن عزیز پاکستان کے سیاسی‘ معاشی‘ کمزور اقتصادی حالات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آکر اچانک اینٹی کلاک وائس جب گھومنے لگتی ہے تو مجھے انکی سوچ اور فکرو نظر کے حوالے سے کی گئی بات چیت اور غربت و بے روزگاری پر اٹھائے سوالات کا جواب دینے میں خاصی آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ ان دوستوں سے چونکہ محکمانہ یاری بھی ہے‘ اس لئے انکی طویل رفاقت سے انکی عادات و اطوار اور انکی معلوماتی گفتگو سے اب خوب واقف ہو چکا ہوں اس لئے ان کی اس علمی چھیڑ چھاڑ کو اکثر و بیشتر میں ’’ولایت نامہ‘‘ میں شامل کرلیتا ہوں۔ اگلے روز اپنی اسی محفل میں میرا اپنے ان دوستوں سے پہلا سوال ای ڈی ایل (انگلش ڈیفنس لیگ) کی جانب سے برطانیہ کے مختلف شہروں میں کئے حالیہ نسلی فسادات اور بالخصوص برطانوی مسلمانوں کے خلاف نفرت بھرے جذبات کے بارے میں تھا جس پر امیگریشن کے ماہر دوست کا کہنا تھا کہ ای ڈی ایل سمیت جس تنظیم نے بھی نسلی فسادات کو ہوا دی‘ وہ انتہائی قابل افسوس اقدام تھا۔ واقعات کو جس طرح بغیر تحقیق کے سامنے لایا گیا‘ اس کی بھی جتنی مذمت کی جائے‘ کم ہے۔ تاہم فسادات کی جس طرح بنیاد رکھی گئی وہ قانون کی کھلی خلاف ورزی تھی جس پر قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔ برطانیہ بلاشبہ ایک ملٹی کلچرل معاشرہ ہے جہاں ہر شخص کو عزت و احترام سے رہتے ہوئے قانون کا ہر حال میں احترام کرنا لازم ہے۔ حالیہ واقعات کا بنیادی پس منظر تین ننھے بچوں کے قتل میں ملوث 17 سالہ ملزم وہ بچہ تھا جسے بغیر تحقیق ’’مسلم‘‘ ظاہر کردیا گیا اور یوں برطانیہ کی بعض نسلی تنظیموں کی جانب سے برطانیہ کے مختلف شہرں میں نسلی فسادات پھوٹ پڑے۔ قدرے توقف کے بعد دوست نے مجھ سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ یہ امر بھی قابل افسوس ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں سوشل میڈیا اور ویب سائٹس پر غیرحقیقی مواد لوڈ کرکے لوگ جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ پاکستانی فرحان آصف نامی شخص کا حوالہ دیتے ہوئے دوست نے کہا کہ سائوتھ پورٹ افسوسناک واقعہ کی غلط رپورٹنگ اور غلط معلومات کو ویب سائٹ پر لوڈ کرکے مذکورہ شخص نے انتہائی ناقابل تلافی جرم کیا مگر مسرت ہوئی کہ پاکستانی اتھارٹیز نے اسے سائبر ٹیررازم کے تحت گرفتار کرکے ایک بہترین مثال قائم کی۔ نسلی حوالے سے کسی بھی قسم کی غلط اطلاعات دینا‘ قانوناً جرم ہے جس پر بھاری جرمانہ اور قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ 
دوست نے درست کہا! پاکستان کے فرحان آصف نامی شخص نے ویب سائٹ پر سائوتھ پورٹ واقعہ میں ملوث ایک جعلی نام کے نوجوان اور پھر اس نام کو سیاسی پناہ گزین قرار دیتے ہوئے ایک چھوٹی کشتی پر اسکی برطانیہ آمد کے حوالہ سے مبینہ طور پر غلط رپورٹنگ کا سہارا لیا‘ بعدازاں بی بی سی نے اصل وضاحت پیش کر دی اور پاکستان کے حوالے سے یہ افسوسناک خبر دنیا بھر میں اور سوشل میڈیا پر پھیل گئی مگر تازہ ترین اطلاعات کے مطابق لاہور کی عدالت نے سائوتھ پورٹ میں تین بچوں کے قتل کے حوالے سے فیک نیوز پھیلانے کے الزام میں گرفتار فرحان آصف کو بری کر دیا ہے۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے ملزم فرحان آصف کیخلاف ’’پیکا‘‘ کی جن دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا‘ دوران سماعت تفتیشی آفیسر نے بتایا کہ ملزم کی جانب سے دی گئی خبر سے پہلے ہی یہ خبر پھیل چکی تھی۔ 
لندن میں ریلوے پلوں اور بڑے شاپنگ سٹوروں کے داخلی دروازوں کے قریب رات بسر کرنے والے بے گھر افراد کی بڑھتی تعداد بڑی شاہراہوں کی ٹریفک لائٹس پر گداگری کرنے والی خواتین اور منشیات کے روزافزوں  واقعات میں اضافہ اور بے روزگاری پر اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے محکمہ ماحولیات کی ماہر لنڈا کا کہنا تھا کہ اس افسوسناک صورتحال پر فوری قابو پانے کیلئے حکومت گو نوٹس لے رہی ہے تاہم لوکل اتھارٹیز اور مقامی ہائوسنگ سوسائٹیز کو مزید اقدامات کرنے ہونگے کہ ایسے واقعات سے ’’برطانوی فلاحی مملکت‘‘ پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ میرا اگلا سوال غزہ میں مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی افواج کی جانب سے ڈھائے مظالم اور جنگ بندی سے مکمل طور پر انکار کے بارے میں تھا جس پر میری گوری کولیگ جولی کا استدلال تھا کہ غزہ میں معصوم بچوں اور مائوں پر جاری وحشیانہ بمباری اسرائیلی جارحیت کا واضح ثبوت ہے۔ امریکہ صرف ’’جمع تفریق‘‘ کا سہارا لے رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ موجودہ برطانوی حکومت اب اسرائیلی مظالم کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرے۔ یاد رہے کہ اسرائیل غزہ جنگ میں اب تک 41 ہزار سے زائد فلسطینی شہید کئے جا چکے ہیں۔ بعض دوستوں نے شدت سے بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کی بڑھتی شرح پر لیبر حکومت کی پالیسیوں پر بھی شدید تنقید کرتے ہوئے اسے برطانوی اقدار کے منافی قرار دیا۔ آخر میں ’’چائے‘‘ اور ’’لاٹے‘‘ کا ایک دور چلا اور یوں ہماری یہ دوستانہ محفل اختتام پذیر ہو گئی۔

ای پیپر دی نیشن