پکوڑوں کی دکان

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینئر سیاستدان اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے یہ کہہ کر استعفٰی دے دیا کہ میں اپنے لوگوں کی توقعات پوری نہیں کرسکا۔ اس سیاست سے پکوڑوں کی دکان لگا لینا بہتر ہے۔ اختر مینگل کی یہ بات بالکل درست ہے کہ سیاستدانوں کی نااہلی‘ کرپشن اور ضد نے ملک کو آج اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ عام آدمی ڈیفالٹ کرچکا ہے۔ سیاست برائے خدمت کے بجائے سیاست کو ذاتی معاشی مفادات سے منسلک کرکے ملکی سیاست پر دولت مند طبقہ مکمل طور پر قابض ہوچکا ہے۔ اختر مینگل نے سیاستدانوں کی نااہلی پر بات کرتے ہوئے کئی شکوے کئے اور سیاستدانوں کو متنبہ کیا کہ اب بھی اگر آپ نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو ملک کو مزید نقصان ہوسکتا ہے۔ موجودہ انتخابی نظام سے عام آدمی اسمبلیوں تک نہیں پہنچ سکتا۔ اربوں روپے کے اثاثے رکھنے والے سیاستدان قوم سے اس قدر مخلص ہیں کہ اسمبلیوں میں پہنچ کر بھاری تنخواہیں اور مراعات باقاعدگی سے لیتے ہیں حالانکہ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ ملک بدترین معاشی حالات سے دوچار ہے۔ ملک کے لئے قرض لے کر پہلی ترجیح میں ذاتی مراعات و تنخواہیں وصول کی جاتی ہیں۔ کوئی بھی اس ملک کی خاطر رضاکارانہ قربانی دینے کو تیار نظر نہیں آتا۔ سیاست سے دولت کے عنصر کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات کا نظام رائج کیا جائے۔ اس نظام میں پارٹی کے منشور کو ووٹ ملے گا اور کسی بھی امیدوار کی ذاتی دولت انتخابات پر اثرانداز نہیں ہوسکے گی۔ 
 ملک میں بدامنی کی صورتحال بدتر ہے اور ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دہشت گردوں کے حملے ہورہے ہیں۔ سیاستدانوں کی نااہلی اور کسی حد تک بدنیتی و کرپشن کی وجہ سے  ہم اب تک کوئی ڈیم نہیں بنا سکے حالانکہ پاکستان قدرتی آبی وسائل کی دولت سے مالا مال ہے لیکن ابر رحمت ہمارے لئے ہمیشہ زحمت ثابت ہوا ہے۔ اس وقت عوام کو مہنگی ترین بجلی فروخت کی جارہی ہے لیکن طویل دورانیہ کی لوڈشیڈنگ بھی معمول کا حصہ ہے۔ ملکی تاریخ میں آبی وسائل سے استفادہ کرنے کے لئے صرف فیلڈ مارشل ایوب خان نے ڈیم بنائے‘ نہری نظام کو وسیع کیا‘ دریاؤں پر بڑے پل بنوائے۔ ملک کو ہائیڈل پاور فراہم کرنے میں واحد نام ایوب خان کا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن وہاں کے عوام کا معیار زندگی نہیں بدلا جاسکا۔ ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا شہر کراچی مسائل کی آماج گاہ بن چکا ہے۔ کراچی کے وسائل سے ملک چل رہا ہے لیکن کراچی میں کوئی بنیاد ی سہولت بہتر انداز میں مہیا کرنے کو تیار نہیں۔ کراچی میں پینے کا صاف پانی نایاب ہوچلا ہے۔
سیاستدانوں نے اپنی ذاتی ایک فیکٹری سے ترقی کرکے کئی فیکٹریاں لگالی ہیں لیکن ان سے قومی ملکیت اسٹیل مل نہیں چل سکی۔ جمہوری دور میں اسٹیل مل ہمیشہ بھاری نقصان کرتی ہے۔ پی آئی اے بدترین خسارے کا شکار رہتی ہے اور ریلوے کی حالت ابتر ہوجاتی ہے۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں اسٹیل ملز‘ پی آئی اے اور ریلوے سالانہ اربوں روپے منافع کمارہے تھے۔ سیاستدانوں نے رشوت‘ سفارش کی بنیاد پر ضرورت سے زیادہ افراد کو میرٹ سے ہٹ کر بھرتی کیا جس سے اداروں کی کارکردگی بھی خراب ہوئی اور قومی اداروں پر غیر ضروری معاشی بوجھ پڑنے سے آج وہ ملکی معیشت پر بہت بڑا بوجھ بن چکے ہیں۔ پی آئی اے‘ اسٹیل ملز سمیت بدترین خسارے کا شکار اداروں کو فوری طور پر نجی شعبے کے حوالے کیا جانا چاہئے اور ان اداروں میں بھاری رشوتیں دے کر بھرتی ہونے والوں کو مناسب گولڈن شیک ہینڈ دی جانی چاہئے۔ 
زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن کسان کو شوگر ملز مافیا‘ فلور مل مافیا‘ کھاد مافیا سمیت مڈل مین کے شکنجے میں جکڑ نے کے بعد اب ڈیزل و بجلی کی بھاری قیمتوں نے کسان کو یہ پیشہ ترک کرنے کی نوبت تک پہنچا دیا ہے۔ فصل کی لاگت جب فصل کی قیمت سے زیادہ ہوجائے گی تو آخر ملک میں زراعت کس طرح ترقی کرسکے گی؟ آج یہ حالت ہے کہ حکومت 3900روپے من گندم کا اعلان کرتی ہے لیکن کسان کو 2400-2500 روپے فی من لینے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ اس حالت میں اب لوگ گندم کاشت کرتے ہوئے سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اسی طرح گنے کے کاشتکاروں کے شوگر ملز نے معاوضے یہ کہہ کر روک رکھے ہیں کہ ہمارے پاس چینی کا وافر اسٹاک موجود ہے لیکن ہمیں برآمد کی اجازت نہیں دی جارہی تاکہ ہم اسے فروخت کرکے گنا کاشتکاروں کی ادائیگیاں کرسکیں۔ جمہوری ادوار میں ہمیشہ کسان کو مڈل مین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں کسانوں نے احتجاج کیا تو صدر مشرف نے انہیں اسلام آباد بلواکر ان کی شکایات سنیں اور انہوں نے کسانوں کے تمام مطالبات تسلیم کرلئے۔ پھر پاکستان تاریخ میں پہلی بار خوراک میں خودکفیل ہوا۔ اس سے پہلے اور اب پھر پاکستان دوسرے ممالک سے ناقص گندم درآمد کرنے پر مجبور ہو رہا ہی جس میں بیرون ملک خریداری سے لیکر شپمنٹ‘ اسٹوریج‘ ٹرانسپورٹیشن سمیت ہر مرحلے پر بھاری کمیشن لئے جانے کی باتیں ہوتی ہیں اور ایسی گندم درآمد کی جاتی ہے جو جانور بھی نہ کھائیں۔ مشرف دور میں تو کسانوں کو ٹیوب ویلوں کے لئے فلیٹ ریٹ پر بجلی ملتی تھی۔ کسانوں کو مناسب ترین سرکاری ریٹ ملتا تھا۔ کسان مشرف دور میں اس قدر خوشحال تھا کہ لوگوں نے بڑے شہروں کی جانب ہجرت کرنا چھوڑ دی تھی۔ کسان کو مشرف دور میں فصل کے جو ریٹ ملتے تھے اب دو دہائیوں بعد بھی حکومت نے فصل کے ریٹ اس دور سے کم مقرر کئے ہیں لیکن وہ بھی کسان کو نہیں ملتے۔
سیاستدانوں کا دعوٰی ہے کہ ملک انہوں نے چلانا ہے لیکن جب بھی یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو اپنی تمام تر نااہلیوں‘ کرپشن و دیگر کوتاہیوں کا سارا ملبہ اداروں پر ڈال کر خود کو فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقتدار میں آتے ہی سیاستدانوں کی توجہ عوام کے مسائل کے حل کے بجائے ذاتی معاشی مفادات کے حصول کی جانب مبذول ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اب یہ حالت ہے کہ ملک بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے اور عوام کے لئے زندگی گزارنا مشکل ترین بنادیا گیا ہے۔ معاشرے میں انصاف کا وجود ختم ہوتا جارہا ہے۔ مالدار تمام تر اختیارات و وسائل پر قابض ہیں۔ غریب کو ریلیف دینے کی پالیسی بنانے کیلئے کوئی تیار نظر نہیں آتا۔ سیاستدان مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے ملک کو درپیش مسائل سے نکالنے کے بجائے روایتی ضد و انا کی سیاست کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسی سیاسی عدم استحکام کے باعث ملک مشکلات کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے۔ سیاستدان ہی شام میں ٹیلی ویڑن پر بیٹھ کر قوم میں مایوسی پھیلانے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ قوم کو حوصلہ کون دے گا؟
موجودہ آرمی چیف نے ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کی خاطر ایپکس کمیٹی بنوا کر ملک کو معاشی بہتری کی جانب لے جانے کے لئے گزشتہ ڈیڑھ سال سے انتھک محنت کی ہے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی اور اداروں کے درمیان ڈیٹا شیئرنگ کرکے ملک کو سرمایہ کاری کے لئے موزوں ملک بنانے پر تیزی سے کام ہورہا ہے جس میں کافی حدتک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ امداد کے بجائے سرمایہ کاری کی پالیسی ہی دراصل ملک کو معاشی مشکلات سے نکال سکتی ہے۔ ایپکس کمیٹیوں کی شاندار کارکردگی اور آرمی چیف کی انتھک محنت کے باعث ڈالر کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ دوست عرب ممالک سمیت بیرون ملک سے بھاری سرمایہ کاری کے معاہدے کئے جارہے ہیں۔ چین نے سی پیک میں زراعت‘ لائیو اسٹاک ‘ فشریز سمیت کئی شعبوں میں تعاون و سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح معدنیات سے استفادے کے لئے ڈنمارک کی جانب سے سرمایہ کاری پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے پٹرولیم سمیت کئی شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری و معاہدے کا قوی امکان ہے۔
بہرحال سیاستدان اگر جائزہ لیں تو اختر مینگل کی اس تجویز پر عمل کرنا چاہئے کہ وہ موجودہ طرز سیاست کو چھوڑ کر پکوڑوں کی ریڑھی لگالیں۔

ای پیپر دی نیشن