’’انسا ن کی حیرت انگیز سا خت ، شناخت، طاقت ‘‘

 صدیوں سے انسان سوچ و فکر کے اوزار سنبھالے ایک ریسرچ لیبارٹری بنائے بیٹھا ہے اور وہاں تین اجسام یعنی ساخت، شناخت اور طاقت کو آپریشن ٹیبل پر رکھ کر آپریشن کے ذریعے ان کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش میں سرگرداں ہے لیکن چونکہ کم علمی اور خطا کا بھی مو ُرث ہے تو فی الحال کامیاب آپریشن نہیں کرسکا لیکن شاید اس کی جہد مسلسل اس آپریشن کو مکمل کامیاب بھی کردے۔ اِس وقت اِن ڈاکٹرز کیلئے سب سے بڑا چیلنج مرض اور مرگ کا مکمل قلع قمع کرنا ہے۔ مرض پر یہ انسان کسی حد تک قابو پالینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ آخری اور بڑا چیلنج موت کا خاتمہ ہے۔ وہ پریشان ہے کہ جب زندگی سے وابستہ تمام کام نمٹاکر تکمیل کے مرحلے میں داخل ہوتا ہے تو پھر بے بسی سے مر کیوں جاتا ہے؟ طاقت اور کمزوری سے بیک وقت اُسے کیوں برسرپیکار رکھا گیا ہے۔ ایک طرف ایسی طاقت عطا کردی گئی ہے کہ چاند تاروں کو پیروں تلے روند دیا ہے۔ سمندروں کو ٹھاٹھیں مارتے پانیوں پر دس بیس منزلہ بحری جہاز رکھ دیئے اور وہ پانی خاموشی سے انہیں اپنے نازک سینے پر جمائے منزلیں طے کرواتا چلا جاتا ہے۔
پیغمبروں نے یہ سارے کام بغیر کسی اوزار کی مدد کے کئے۔ ایک ہستیٔ مقدس رسول اکرم  ﷺ  نے زمین پر کھڑے کھڑے انگلیوں کی قینچی سے چاند کی چادر کو بیچوں بیچ کا ٹ دیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے لکڑی کی سوٹی سے غضبناک سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اپنے لئے خشک راستہ بنالیا۔ پھر ایک اور پیغمبر خدا (حضرت سلیمانؑ) نے اپنا بھاری بھرکم تخت جس پر مصاحبین کی چھ سو کرسیاں بھی براجمان تھیں، ہوا میں اڑالیا۔ آج کل مغرب کے تمام سائنسدان، دانشور اور مذہبی رہنما اسلام کے انہی معجزوں پر ریسرچ کررہے ہیں۔ یورپ میں روحانی تجربات کے لئے بیسیوں لیبارٹریز وجود میں آگئی ہیں۔ ہزاروں کتابیں چھپ رہی ہیں۔ ان میں سے چند کے نام لکھ رہی ہوں۔ اُن کے ناموں سے اِن کے اندر کے مواد کا اندازہ ہوجائے گا۔ آگے چل کر ان میں سے کچھ اقتباسات بھی لکھوں گی تاکہ آپ کو معلومات کے ساتھ شرمندگی کا احساس بھی دِلا سکوں۔ ایک مصنف ’’سر ولیم کانن‘‘ اپنی کتاب
Research in the Phenamin pritualism 'میں لکھتا ہے۔
’’انبیاء اور اولیاء میں روحانی طاقت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے حرف ِکلمات میں بہت زیادہ تاثیر ہوتی ہے۔ وہ مرض و آلام کو دُور کرنے کی حیرت انگیز طاقت رکھتے ہیں۔ ایک آدمی میرے پاس آیا، اُس کا پورا جسم پیپ بھرے دانوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے اُسے زبور کی چندآیات وِرد کرنے کو دیں اور وہ بالکل ٹھیک ہوگیا۔ الہامی الفاظ میں حیرت انگیز طاقت ہے۔ مسلمان خوش قسمت ہیں کہ ان کے پاس خدا کے ننانوے ایسے اسمائے الٰہی ہیں جن میں ایسی ناقابل یقین حیر ت ا نگیز طاقت ہے کہ ان کے معنی کے مطابق انہیں وِرد کرنے سے مہلک امراض دُور ہوسکتے ہیں۔‘‘ اُس نے اس کتاب میں جسم لطیف، کا  سمک ور لڈ،  حیات بعد از موت،  دعا،  تعلق باللہ،  حقیقی مسرت اور دیگر انسانی تخیلات پر حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں۔ ایک پادری ’’لیڈ بیٹر‘‘ نے بھی ،جو یورپ کے بہت مانے ہوئے صوفی سمجھے جاتے تھے۔ اپنی کتاب ’’Invisible Helpers‘‘ میں حیرت انگیز تجربات لکھے ہیں۔ وہ کہتا ہے.....!
’’میں انسانی طاقت کو استعمال کرنے کے ذاتی تجربات سے گزرا ہوں۔ میں اپنے جسم لطیف کے ساتھ دُور تک سفر کرتا تھا اور کچھ مخفی اشیاء کو دیکھ سکتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ نفرت اور محبت جیسے جذبے اپنے اندر اتنی حیرت انگیز قوت رکھتے ہیں کہ میں نے اس کے عملی اثرات دیکھے ہیں۔ الفاظ اپنے اندر ایٹمی طاقت رکھتے ہیں جس سے اندر ونی جذبات میں بجلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً گالی ایک لفظ ہے مگر سننے والے کے وجود پر بجلی بن کر گرتی ہے اور اُس کے تن من میں آگ لگ جاتی ہے۔ ایک عورت کا واقعہ ہوا اور وہ عورت شدید نفرت کے جذبات کے گھیرے میں آگئی۔ اِسی دوران اُس نے اپنے دودھ پیتے بچے کو دودھ پلایا تو وہ زہر بن چکا تھا۔ بچہ اس ماں کی گود میں ہی مرگیا۔ صرف الفاظ کی قوت بہت کچھ کرلیتی ہے۔ جب انسان دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہے تو اُس کے اندرونی جذبات میں ایک ’’Emotional Energy‘‘ پیدا ہوجاتی ہے جو کا  سمک ور لڈمیں زبردست لہریں پیدا کرتی ہیں۔ یہ لہریں فیض رساں طاقتوں سے ٹکراتی ہیں تو وہ ہماری مدد کو دوڑتی چلی آتی ہیں۔ گداز اضطراب اور نیاز و دعا کے شہپر بن جاتے ہیں اَور وہ عالم بالا کی مسافتوں کو طے کرکے ہم تک فیض پہنچادیتے ہیں۔ 
ایک اور ڈاکٹر الیگزینڈر کانن لکھتا ہے۔ ’’محبت نیک نیتی، مروت، ہمدردی ایسی سازگار قوتیں ہیں۔ یہ انسان کے اندر حیات بخش رطوبتیں پیدا کردیتی ہیں جو امراض کو ختم کردیتی ہیں اور جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو دماغ ایسی لہریں پیدا کرنا شروع کردیتا ہے جو خوف اور بے چینی میں تبدیل ہوجاتی ہیں جو امراض اور موت تک کا سبب بن جاتی ہیں۔
ہم مسلمان کتنے خوش نصیب ہیں کہ سب مذاہب نے ہمیں رہنما جانا اور ہماری تعلیمات سے سبق حاصل کئے مگر ہم غبی طالب علموں نے اپنا سبق یاد ہی نہیں کیا اور قرآن حکیم کو کپڑ ے کے خوبصورت غلا ف میں بند کرکے اونچے طاق پر رکھ دیاہے۔جہاں ہمارا  ہا تھ نہیں پہنچتا ساری روحانی طاقتوں اور ان کے استعمال کے طریقے ہماری وراثت تھی، ہماری ملکیت تھی، ہماری برتری تھی اور ہماری رسائی تھی۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں نے اسے لوٹ لیا۔ وہ مالا مال ہوگئے اور ہم کنگال ہوگئے۔ علامہ اقبال کی تمام تر شاعری ہمیں جگانے، سمجھنے، سمجھانے کا قابل ترین اُستاد تھی مگر ہم نے تو اِس کی درد مند اور دُور رس مزدوری کا بھی احساس نہ کیا۔ اُس کی اُجرت ہمارا عمل ہوسکتا تھا۔ اُن کی کتابیں جو روحانیت کا نصاب تھیں، ہم نے انہیں سکول کا نصاب سمجھ لیا۔ اُن کے دو اشعار سنیں۔
تیری نگاہ میں ہے معجزات کی دُنیا
مری نگاہ میں ہے حادثات کی دُنیا
عجب نہیں کہ بدل دے اِسے نگاہ تری
بلا رہی ہے تجھے  ممکنات  کی  دُنیا
پروردگار مجھے تو فیق دئیے رکھے کہ میں اپنے اور دوسر ے مذاہب کے دانشوروں کی مشقتوں کے احوال اور اُنکی نقد اُجر ت اپنے قا رئین میں خیرات کرتی رہوں۔ 

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...