عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟

ہمارے ہر دور کے حکمرانوں نے عوام کو ترقی و خوشحالی کے سنہر ے خواب دکھانے اور بلند و بانگ دعوے کرنے میں ہمیشہ ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کی ہے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عوام پر مہنگائی کے بم گرانے کے بعد ہمارے حکمران بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ہم نے یہ فیصلہ ملک کے وسیع ترمفاد میں کیا اور اس سے عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا حکمرانوں کے ایسے بیانات پر عوام سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ آخر وہ عام آدمی کون ہے ؟ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ کسی بھی حکومت نے عوام کو معیشت کے بارے کبھی حقائق سے آگاہ نہیں کیا اور ان کے جاری کردہ اعدادوشمار ، گراف اور جائزے ہمیشہ حقائق سے متضاد ہی ہوتے ہیں ابھی حال میں ادارہ شماریات نے دعویٰ کیا ہے کہ اگست 2024؁ء میں مہنگائی کی شرح 3سال بعد سنگل ڈیجٹ یعنی 9.6%پر آگئی ہے۔ عوام یہ رپورٹ جاری کرنے والوں سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ انہوں نے کبھی خود بازارسے خریداری کی ہے ؟عوام نے اسی اگست کے دوران جو اشیائے خوردنی کی خریداری کی تھی انہیں اصل حقائق کا بخوبی علم ہے۔ حکومت یہ دعوے کر رہی ہے کہ اسٹیٹ بنک کی سخت مانیٹری پالیسی اور روپے کی قدر میں استحکام کی وجہ سے مہنگائی اور اقراطِ زرمیں کمی ہوئی ہے جو مئی 2023ء؁میں38فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی تھی حکومت کے اس شاندار کارنامے"کی وجہ سے ہمیں شائد اب آئی ایم ایف کی قسط کی ضرورت ہی نہ پڑے کیونکہ ترقی کی جادوئی چھڑی" ہمارے ہاتھ لگ چکی ہے۔ یقینااب مہنگائی، بے روز گاری اور غربت میں کمی آجائے گی، بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی آئے گی اور عوام پر’’ مہنگائی کے بم‘‘گرنے بند ہو جائیں گے (’’اللہ کرے ایسا ہی ہو جائے ‘‘)۔ حیران کن  امر یہ ہے کہ پاکستان نے 7ارب ڈالر قرضے کے لیے IMFکی تمام سخت شرائط بھی تسلیم کر لیں تھیں لیکن ہمیں یہ قرضہ ملنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے ستمبر کے ایجنڈے میں پاکستان کا ذکر تک نہیں ہے ۔  جہاں تک مہنگائی میں کمی کے حکومتی دعوؤں کا تعلق ہے ، اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ مہنگائی زوروں پر ہے اور تمام اشیائے خوردنی، پھلوں سبزیوں، گوشت وغیرہ کی قیمتوں میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے زرعی اور صنعتی شعبے کی مجموعی پیداوار میں بھی کمی ہو رہی ہے ہماری ٹیکسٹائیل کی سب سے بڑی صنعت کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے زبردست بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے ہماری اس شعبے کی برآمدات میں کمی ہو رہی ہے دوسری طرف بجلی کی قیمتوں میں آئے روز کے اضافے سے ہمارے پیداواری اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں جس سے ہم عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ہمارا مینو فیکچرنگ سیکٹر بھی ٹیکسوں کے’’کڑے نظام‘‘اور مہنگی بجلی کی وجہ سے کئی مشکلات کا شکار ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے بازار’’سمگل شدہ غیر ملکی سامان سے‘‘ اٹے 
پڑے ہیں ’’اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ہماری معیشت غیر ملکی قرضوں کے سہارے اور موجودہ ٹیکسوں کے نیٹ ورک کو وسیع کرنے پر ہی چل رہی ہے جبکہ صنعت و تجارت اور معیشت کی تباہی کی زیادہ تر وجہ آئی پی پیز کی مہنگی بجلی ہی ہے ایک رپورٹ کے مطابق درجنوں نئے آئی پی پیز کے آنے سے کیپسٹی پے منٹ کی مد میں اربوں روپے کی مزید ادائیگیوں کا بوجھ ملک پڑا ہے یہ تکلیف وہ امر ہے کہ بجلی اورگیس کے روز بروز بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں کی وجہ سے ہی ملکی معیشت ’’ڈانواڈول‘‘ ہوئی ہے حکومت یہ بات جان لے کہ آئی پی پیز کی مہنگی بجلی سے ہی گردشی قرضے ریکارڈ حد تک بڑھ چکے ہیں جو ملکی معیشت کی جڑیں کھوکھلا کر رہے ہیں اور عوام کو بھی’’مہنگی بجلی کا مسلسل رگڑا‘‘لگ رہا ہے  دکھ کی بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے بجلی کے 500یونٹ کے صارفین کو جو بڑا ریلیف دینے کا اعلان کیا تھا اور دیگر صوبے بھی کچھ ایسے ہی اقدامات کرنے پر غور کررہے تھے لیکن IMFنے اس ریلیف کی بھر پور مخالفت کر دی ہے۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ ہمارے مالیاتی اور انتظامی اخراجات بڑھ رہے ہیں جس پر کنٹرول کرنے کے لیے حکومت ہمیشہ عوام سے ہی قربانی مانگتی ہے جبکہ صدر، وزیرِ اعظم ، وزراء اکرام، اراکین پارلیمنٹ اور اعلیٰ بیورو کریسی خود قربانی کیوں نہیں دیتے اور اپنے اخراجات اور مراعات کم کیوںنہیں کرتے؟ کیا انہوں نے ملک و قوم کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دینے کے بلند و بانگ دعوے نہیں کیے تھے؟ حکومت کے ذمہ داروں کے چاہیے کہ وہ ملکی وسائل کے حل کے لیے مالی، معاشی اور انتظامی ماہرین کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو بھی اس قومی عمل میں شامل کرے ۔ سیاسی لڑائیاں اور اختلافات ہوتے رہتے ہیں لیکن قومی اور عوامی مفاد سب سے افضل ہے اس لیے حکومت کو خود آگے آنا ہوگا دوسری سب سے اہم بات یہ کہ ہمیں اپنے قدرتی، معدنی اور آبی وسائل سے بھر پور استفادہ کرنا ہوگا جس ملک کو اللہ تعالیٰ نے بے پنا ہ وسائل سے نوازا ہوا اس سے فائدہ نہ اٹھانا یقینا "کفرانِ نعمت "سے کم نہیں ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جس ملک سے سونا تانبہ قیمتی پتھر سنگِ مر مر ، کوئلہ اور دوسری قیمتی معدنیات نکلتی ہوں وہ کیا کبھی قرضوں میں ڈوب سکتا ہے ؟  ایسا ممکن ہی نہیں ۔ قدرت کے عطاء کردہ چاروں موسم موزوں آب و ہوا  وسیع عریض زرخیز زرعی زمینیں دنیا کا بہترین نہری نظام، محنتی کسان اور مو یشیوں کی قیمتی دولت ہو تواس ملک کی زراعت کبھی تباہ ہو سکتی ہے؟ قدیم ثقافتی مراکز اور سیاھتی مقامات سے مالا مال ملک کے قومی خزانے کبھی خالی ہو سکتے ہیں ؟ کیا کسی ملک کے پاس نوجوانوں کی اس قدر تعداد موجودہے جو اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو دی ہے ؟ حکومت اگر ان نوجوانوں کوصحیح منصوبہ بندی کر کے ضروری وسائل اور سہولتیں فراہم کر دے تو یہ ملک کی ڈوبی ہوئی معیشت کو دِنوں میں شاہراہ ترقی پر گامزن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ افسوس ناک بات یہ کہ حکومت اپنے گھاٹے پر جانے والے قومی اداروں پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے، ریلویز سمیت دیگر اہم شعبوں میں سخت ترین انتظامی اور مالیاتی نظم و نسق لانے کی بجائے ان کی نجکاری کر کے جان چھوڑا نا چاہتی ہے ہے تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ حکومت منافع بخش سرکاری اداروں کے حصص کا ایک معقول حصہ فروخت کرنے کی بھی منصوبہ بندی کررہی ہے ۔

ای پیپر دی نیشن