بنگال ٹائیگرز نے گرین شاہین کو وائٹ واش کر کے ادھیڑ ڈالا
بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کو لگتا ہے وہاں کی حکومتی تبدیلی راس آ گئی ہے۔ پاکستان کے دورے میں جس طرح بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم نے دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھی پاکستانی شاہینوں کے بال و پر ہی نہیں چونچ اور پنجے بھی کتر ڈالے، اس کا مشاہدہ سب نے کھلی آنکھوں سے کیا۔کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ ایک جملے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ حسب معمول ہمارے بائولر ، بیٹسمین اور فیلڈرز سب نے دوسرا میچ بھی ہروانے میں اپنا اپنا کردار نہایت خوش اسلوبی سے ادا کیا۔ ایک موقع پر تو 6 کھلاڑیوں کے آئوٹ ہونے کے بعد لگ رہا تھا میچ پاکستان جیت سکتا ہے۔ مگر یہ موقع بھی وہ ہمارے منہ سے نوالے کی طرح چھین کر لے گئے۔ نجانے کیوں اس بات میں وزن محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ چیئرمین محسن نقوی کرکٹ کے لیے سبز قدم ثابت ہوئے ہیں۔ جہاں بھی دیکھو شکست ہی شکست کا سامنا ہو رہا ہے۔ فتح تو لگتا ہے ہم سے روٹھ گئی ہے۔ یہی حال کھلاڑیوں کا بھی ہے۔ ان پر تو
پسینہ پسینہ ہوئے جا رہے ہو نجانے کہاں سے چلے آ رہے ہو۔
یہ کس کی تم کو نظر لگ گئی ہے
بہاروں کے موسم میں کملا رہے ہو۔
کے مصداق تنقید بھی کریں تو کس پر کریں۔ جہاں نظر ڈالیں کارکردگی کا فقدان ملتا ہے۔ نہ کوئی ہیرو نظر آتا ہے نہ کوئی زیرو۔ اس حمام میں سب ننگے نظر آتے ہیں۔ اس لیے کسی ایک پر تنقید کرنا درست نہیں۔ فی الحال تو ہم اہلِ پاکستان کو اپنی ہوم گرائونڈ پر وائٹ واش شکست تادیر یاد رہے گی اس لیے ہم اس موقع پر سوائے حرف تسلیت کے اور کچھ کہہ کر کسی کے زخموں پر نمک پاشی کرنا نہیں چاہتے۔ ان کے دکھوں میں اضافہ کرنا نہیں چاہتے۔
٭٭٭٭٭
پوپ کا پاکستان کی فضائی حدود سے گزرتے ہوئے نیک خواہشات اور خیرسگالی کا پیغام
یہ ہوتا ہے اعلیٰ ظرفی، اچھے اخلاق و تربیت و عالمی مہذبانہ رویے کی پاسداری کا اثر۔یہ ایک طے شدہ عالمی اصول ہے کہ جب کسی ملک کا سربراہ فضائی سفر کے دوران کسی ملک کی فضائی حدود استعمال کرتا ہے۔ یعنی وہاں سے گزرتا ہے تو وہ وہاں کی حکومت اور عوام کے لیے نیک تمنا?ں اور خیرسگالی کے جذبات کا پیغام دیتا ہے۔ اس سے کوئی مستثنیٰ نہیں سب اس پر عمل کرتے ہیں۔ یہ باہمی احترام اور عالمی قوانین پر اعتماد و عمل کی نشانی ہے۔ مگر اس کے باوجود کچھ لوگ ایسے جنم جلے ہوتے ہیں کہ رعونت نے ان پر خاک ڈالی ہوتی ہے اور وہ متکبر بن کر مجسم نفرت بن جاتے ہیں۔ نہ انہیں کسی قانون کی پرواہ ہوتی ہے نہ اخلاق کی۔ ایسے لوگ جب طاقتور ہو جائیں تو وہ خود کو نمرود و فرعون سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسا ہی حال ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا ہے۔ جہاں عقل سے عاری نخوت سے بھری نریندر مودی کی حکومت ہے۔ گزشتہ ماہ انہوں نے ایک گھنٹہ سے زیادہ پاکستانی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ بخیرو عافیت گزرنے کے باوجود کوئی خیرسگالی کا پیغام نہیں دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ قوانین سے کتنے نابلد ہیں۔ ورنہ وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ چائے کی دکان کے بنچ پربھی اگر کوئی آ کر بیٹھے تو ویٹر رسماً روٹین کے مطابق اس سے جا کر آرڈر کا پوچھتا ہے۔ پھر بھی وہ اتنی بڑی بات کیسے بھول گئے۔ ایسے جاہلوں کے مقابلے میں دیکھ لیں ایک مہذب قوم کا فرد کیسی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ گزشتہ روز پو پ نے جکارتہ جاتے ہوئے پاکستانی فضائی حدود استعمال کرتے وقت روایتی خیرسگالی کا پیغام بھیجا جس نے احمق اور دانا کا فرق واضح کر دیا۔ یہ سب جانتے ہیں کہ پیغام نہ بھیجنے والا احمق کون تھا۔
٭٭٭٭٭
وزیر اعلی بلوچستان سر فراز بگٹی کا دبنگ بیانیہ اور سردار اختر مینگل کا مایوسی میں استعفیٰ
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اختر مینگل نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیدیا جو فی الحال منظور نہیں ہوا۔ یہ دراصل بلوچستان کے حالات کو جان بوجھ کر خراب کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ قوم پرست تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں اپنے پرانے بدلے چکانے کے لیے متحد ہو رہی ہیں۔ سردار اختر مینگل نے گزشتہ روز اچانک قومی اسمبلی سے یہ کہہ کر استعفیٰ دیدیا کہ جو اسمبلی ہمارے مفادات و حقوق کا تحفظ نہ کرے وہاں رہنا فضول ہے۔ ہمیں صدر اور وزیر اعظم پر اعتماد نہیں۔ شکر ہے یہ استعفی فی الحال منظور نہیں کیا گیا۔ دراصل اختر مینگل جانتے ہیں کہ نوجوان بلوچ ان سے ان کی سیاست سے خوش نہیں کیونکہ مینگل صاحب بات قوم پرستی کی کرتے ہیں اور دروغ بر گردن راوی ان کی رشتہ داریاں پنجابیوں سے ہیں۔ سوشل میڈیا ان ناراض بلوچوں کے پیغامات سے بھرا ہوا ہے۔ دوسری طرف سب جانتے ہیں کہ کئی طاقتوں کو سی پیک کے تحت گوادر ایئر پورٹ اور بندرگاہ کی تعمیر اور آپریشنل ہونا برداشت نہیں ہو رہا۔ حالانکہ ان کے آپریشنل ہونے سے ترقی صوبے اور ملک کی ہو گی خوشحالی بلوچستان میں آئے گی۔ ان سے سیندک بھی ہضم نہیں ہو رہا۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی اس وقت حقیقت میں سابق وزیر اعلیٰ سردار اکبر بگٹی جیسی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سچ کی ترجمانی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ ان نئے نویلے قوم پرستوں کو پتہ بھی نہیں ہو گا کہ 1971ء کے پرآشوب دور میں نفرت کی سیاست عروج پر تھی تو نواب اکبر بگٹی نے کھلے عام جلسے میں کہا تھا کہ بلوچستان میں جو پنجابی، سندھی رچ بس گئے ہیں وہ سب ہمارے بھائی اور بلوچستانی ہیں۔ انہیں نکالنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ آج یہی بات سرفراز بگٹی کہہ رہے ہیں۔ حقوق کی بات کرنا مفادات کا تحفظ کرنا درست ہے۔ مگر محرومیوں کی آڑ میں دہشت گردی کو فروغ دینا بے گناہ شہریوں کا قتل کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ اختر مینگل ایک بڑے بزرگ سیاسی رہنما ہیں وہ چاہیں تو پل کا کام کر سکتے ہیں۔ نفرتیں مٹا سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں پکوڑوں کی دکان کھولنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ محب وطن عناصر انہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔ ان کی جگہ اسمبلی میں ہی نہیں لوگوں کے دلوں میں ہو گی۔
٭٭٭٭٭