بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا ہے۔ استعفے کا اعلان کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا تھا کہ اسمبلی میں بلوچستان کے مسائل پر بات کروں گا لیکن بلوچستان کے معاملے پر لوگوں کی دلچسپی نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں بلوچستان آپ کے ہاتھوں سے نکل نہیں رہا بلکہ نکل چکا ہے، بلوچستان میں بہت سے لوگوں کا خون بہہ چکا ہے، اس مسئلے پر سب کو اکٹھا ہونا چاہیے، جب بھی اس مسئلے پر بات شروع کرو تو بلیک آؤٹ کر دیا جاتا ہے، میری باتوں پر اگر آپ کو اختلاف ہے تو آپ میری باتیں تحمل سے سنیں، اگر پھر بھی میری باتیں غلط لگیں تو مجھے ہر سزا قبول ہے، مجھے بے شک پارلیمنٹ کے باہر انکائونٹر کردیں یا مار دیں لیکن بات تو سنیں۔ دوسری جانب، وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اختر مینگل کا استعفیٰ واپس لینے کے لیے ان کے خدشات دور کرنا چاہئیں۔ اختر مینگل سے بات چیت ہو سکتی ہے، کرنی چاہیے۔ بلوچستان کی بہتری کے لیے کئی مواقع ضائع کیے گئے۔ بلوچستان کی محرومیوں کی وجہ سے وہاں ملک دشمن عناصر کو تقویت ملی۔ ان تمام وجوہ کو ختم کرنا چاہتے جن کی وجہ سے بلوچستان میں مسائل ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سردار اختر مینگل کا قومی اسمبلی سے استعفیٰ وفاق کے لیے برا شگون ہے۔ بلاشبہ بلوچستان کا مسئلہ محض طاقت، مذاکرات یا پسندیدہ سیاسی کھلاڑیوں سے حل نہیں ہوگا۔ مشیر وزیراعظم سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا ہے کہ حکومت اختر مینگل سے ضرور رابطہ کرے گی۔ کوشش ہو گی کہ اختر مینگل کی ناراضی دور کی جائے اور وہ رکن اسمبلی رہیں۔ اختر مینگل کا استعفیٰ واقعی افسوس ناک صورتِ حال ہے، وہ جہاندیدہ سیاستدان ہیں، حکومت کو چاہیے کہ ان کے ساتھ مل کر ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کرے۔ وفاق اور اس کی اکائیوں کے مابین منافرت ابھارنے سے دشمن کو ملک کی سلامتی کے خلاف سازشیں پروان چڑھانے کا موقع ملتا ہے۔