کور کمانڈرز کانفرنس: استحکام کے لیے کڑا احتساب ناگزیر

 پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاک فوج دہشت گردوں، انتشار پسندوں اور جرائم پیشہ مافیاز کے خلاف ضروری اور قانونی کارروائی کرنے میں حکومت، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جامع تعاون فراہم کرتی رہے گی۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق گزشتہ روز آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت جی ایچ کیو راولپنڈی میں کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی۔ شرکاء کانفرنس نے سب سے پہلے شہداء کے ایصال و ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ کانفرنس کے شرکاء نے پاکستان کے امن و استحکام کیلئے شہداء ، افواجِ پاکستان، دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پاکستانی شہریوں کی بلوچستان اور خیبر پی کے میں لازوال قربانیوں کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔ کانفرنس میں شرکاء کو خطے کی صورتحال، قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز اور بڑھتے ہوئے خطرات کے جواب میں آپریشنل حکمت عملی کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔  فورم نے ملک، خصوصاً بلوچستان اور خیبر پی کے میں سرگرم ملک دشمن قوتوں، منفی اور تخریبی عناصر اور ان کے پاکستان مخالف اندرونی اور بیرونی سہو لت کاروں کی سرگرمیوں اور اس کے تدارک کے لئے کئے جانے والے متعدد اقدامات پر بھی غور کیا۔
 پاکستان کو آج اندرونی اور بیرونی سطح پر کئی چیلنجز کا سامنا ہے جس کے لیے پاک فوج اپنا کردار بہترین طریقے سے ادا کر رہی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاک فوج کی قربانیاں لازوال ہیں۔ افواج کے سپوت اپنا آج قوم کے کل یعنی ملک کے تابناک مستقبل کے لیے قربان کر رہے ہیں۔خطے کے جغرافیائی حالات اور صورتحال کی بات کی جائے تو مشرقی سرحد پر پاکستان کا ازلی اور ابدی دشمن بھارت بیٹھا ہوا ہے جس کی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر شرارتیں جاری رہتی ہیں جن کا پاک فوج کی طرف سے بھرپور اور بروقت جواب دیا جاتا ہے۔ مغربی سرحد کی بات کریں تو پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد صرف پانچ سال کا ایک ایسا عرصہ ہے جب افغانستان میں ملا عمر کی سربراہی میں طالبان کی حکومت تھی۔ اس دوران یہ سرحد پرامن رہی. اس سے پہلے اور اس کے بعد افغانستان کی طرف سے کبھی خیر کی خبر نہیں آئی۔نائن الیون کے بعد امریکہ نے پاکستان کی مدد سے افغانستان کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تو پہلے حامد کرزئی اور بعد میں اشرف غنی کو اقتدار میں لایا گیا۔ دونوں امریکہ کی کٹھ پتلی اور پراکسی کا کردار ادا کرتے رہے۔امریکہ کی جنگ میں پاکستان نے اس کا بھرپور ساتھ دیا لیکن اس کے باوجود  اشرف غنی اور کرزئی حکومتیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے سرگرداں رہیں۔دونوں کے بھارت کے ساتھ تعلقات گرم جوشی پر مبنی رہے اور ان کے ادوار میں افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی رہی۔امریکہ کو افغانستان سے نکلنا پڑا تو طالبان ایک بار پھر پاکستان کی سپورٹ سے اقتدار میں آگئے۔ امید کی جاتی تھی کہ اب افغانستان بھارت کی پراکسی کے طور پر کام نہیں کرے گا لیکن بدقسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ پہلے سے بھی زیادہ افغانستان کے اندر سے پاکستان میں مداخلت ہونے لگی۔ پہلے تو بھارت افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا تھا۔ اب ٹی ٹی پی نے بھی وہاں اپنے مستقل اور مضبوط ٹھکانے بنا لیے۔پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا کھرا افغانستان میں ہی جا نکلتا ہے۔پاکستان میں نام نہاد مذہبی لوگ دہشت گردی میں ملوث ہوں یا بلوچ علیحدگی پسند ان سب کے پیچھے بھارت ہی موجود ہے۔ ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھارت کی طرف سے فنڈنگ کے ثبوت بھی سامنے آ چکے ہیں۔
پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی بدستور ایک چیلنج ہے۔یہ دہشت گردی کہاں کہاں سے ہوتی ہے۔ پاک فوج کو اس کا پورا ادراک ہے۔ افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے ٹھکانے ہیں جس کی تصدیق اقوام متحدہ کی طرف سے بھی کی گئی ہے۔ پاکستان نے طالبان حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا، تنبیہ بھی کی لیکن اس کے باوجود ٹی ٹی پی کی کارروائیاں جاری رہیں تو پاکستان نے ان کے ٹھکانوں پر حملہ بھی کیا۔اندرونی طور پر دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں بدستور لاکھوں افغان پناہ گزین موجود ہیں ان میں سے کئی براہ راست دہشت گردی میں ملوث ہیں اور کچھ دہشت گردوں کی سہولت کاری کرتے ہیں۔ مقامی لوگ بھی سہولت کاری میں ملوث ہیں۔دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے پاکستان کے پاس آخری آپشن ہوگا کہ ہر افغان مہاجر کو واپس بھیج دیا۔
کور کمانڈر کانفرنس میں اس بات پر زور دیاگیا کہ فوج ایک منظم ادارہ ہے جس کے ہر فرد کی پیشہ ورانہ مہارت اور وفاداری  صرف ریاست اور افواج پاکستان کے ساتھ ہے۔ شرکاء کانفرنس کا کہنا تھا کہ پاک فوج غیر متزلزل عزم سے ایک مضبوط اور کڑے احتساب کے ذریعے اپنی اقدار کی پاسداری کرتی ہے، جس میں کسی قسم کی جانبداری اور استثنیٰ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ فوج میں موجود کڑے احتسابی نظام پر عملدرآمد ادارے کے استحکام کے لئے لازم ہے اور کوئی بھی فرد اس عمل سے بالاتر اور مستثنیٰ نہیں ہو سکتا۔
پاک فوج کی خود احتسابی کے حوالے سے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔جرنیلوں تک کوکورٹ مارشل کے ذریعے سزائیں ہو چکی ہیں۔ حالیہ برسوں ایک بریگیڈیئر کو جاسوسی کے الزام میں پھانسی  دی جا چکی ہے۔فوج میں جرم کرنے والا بچ نہیں سکتا اور بے قصور کو سزا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ملک کے دفاع و تحفظ کے لیئے بطور ریاستی ادارہ افواج پاکستان کا کردار بے مثال ہے۔ اسے کمزور کرنے کی کوئی سازش قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ فوج کے اندر احتساب کے کڑے نظام سے اس ادارے کے استحکام کی ضمانت ملتی ہے۔ دوسرے ریاستی انتظامی اداروں کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہیئے۔

ای پیپر دی نیشن