پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے منشور پر ہی عمل پیرا ہوتی ہے اورا ن کے لوگ اس پر پہرا بھی دیتے ہیں، چاہیں جماعتیں اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف کی جماعتیں ۔ہر سیاسی جماعت کے لوگوں کی سوچ کا اپنا محور ہی ہے اوراس پیمانے پر ان کی کارکردگی کو جانچتی ہیں جس کی وجہ سے اچھی کارکردگی بھی بعض اوقات اتنی دب جاتی ہے کہ وہ آنکھوں سے اوجھل ہی ہو جاتی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ 2024 کے عام انتخابات مشکل حالات میں ہوئے اورحکومت کی یہ مشکلات ابھی تک کم نہیں ہوسکیں ،شاید اسی وجہ سے غالب نے کہا تھا۔
’’رنج سے خوگر ہو اانسان تومٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیںمجھ پر کہ آسان ہو گئیں ‘‘
ان حالات میں وزیراعظم شہباز شریف کا یہ بیان حوصلہ افزاء ہے کہ مہنگائی کم ہورہی ہے اور اس ماہ میں مہنگائی کا گراف سنگل ڈیجٹ پر آیا ہے اور آئی ایم ایف شرائط بروقت پوری کریں گے ساتھ یہ خبر بھی آئی کہ آئی ایم ایف سے 7ارب ڈالرکے پروگرام کی حتمی منظوری تاخیر کا شکار ہے،آئی ایم ایف نے ستمبر کے ماہ میں اجلاسوں کا جو کیلنڈر جاری کیا دو اجلاسوں کے ایجنڈے میں پاکستان کا ایجنڈا شامل نہیں ،حالانکہ آئی ایم ایف سے سٹاف لیول کا معاہدہ 12جولائی کو ہوچکا ہے اس سے ہماری پریشانیاں بڑھ گئیں ہیں اور امریکہ بہادر یہ کہ رہا ہے کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف ان کا پورا ساتھ دیا ہے ہم پاکستان کے شانہ بشانہ ساتھ کھڑے ہیں اور آئی ایم ایف سے یہ نہیں پوچھ رہا کہ سات ارب ڈالر امداد کی منظوری سے ہمیں اس وقت کیوں نکالا؟ تو کیا فیض صاحب نے صحیح کہا تھا کہ
’’بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے ‘‘
ابھی یہ بات ہضم ہو نہیں رہی تھی کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی سیٹ سے یہ کہ کر استعفیٰ دے دیا کہ بلوچستان ہاتھ سے نکل چکا ملک میں صرف نام کی حکومت ہے میں بلوچستان کے عوام سے شرمندہ ہوں سیاست سے بہتر ہے کہ پکوڑوں کی دوکان کھول لو۔کیا واقعی اتنے حالات خراب ہورہے ہیں کہ اختر مینگل جیسے زیرک سیاستدان معافی مانگ کر سسٹم سے باہر آبیٹھے ہیں کیا وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت سنجید ہ نہیں ہے یا کہیں وہ خود بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں بقول جون ایلیا صاحب
’’ وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا ‘‘
اب وہ شخص جس کے پاس ملک کے خزانے کی کنجیاں ہیں یعنی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ،وہ یہ کہ رہے ہیں کہ تنخواہ دار طبقہ اپنے حصے سے زیادہ ٹیکس ادا کررہا ہے ،ملک ایسے نہیں چلے گا ،ملک خیرات پر نہیں چلتے تو ان سے ایک سوال تو بنتا ہے کہ عوام نے جب سے آنکھ اس آزاد ملک میں کھولی ہے تقریبا ساری حکومتیں خیرات پر ہی چلتی رہی ہیں۔ یہاں ایک طبقہ ہمیشہ خطے غربت سے نیچے رہا ہے اور روز بروز وہ اس میں اتنا دھنس گیا ہے کہ ان کا سانس لینا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے تو وہ آکیسجن جن لوگوں نے فراہم کرنی تھی وہ مزے لوٹ رہے ہیں اور اپنی نیندیں پوری کررہے ہیں،اپنی کوتاہیوں کو درست کرنے کی بجائے موردالزام سابق حکومتوں کی پالیسوں کو قرار دہتے ہیں تو یہ بات کہ سکتے ہیں جو علامہ اقبال نے کہی تھی کہ
’’ اپنے کردار پہ ڈال کہ پردہ اقبال
ہر شخص کہ رہا ہے زمانہ خراب ہے ‘‘
ملک میں جمہوری حکومت قائم کرنے کے سب سے بڑے ادارے الیکشن کمشن آف پاکستان کا حال یہ ہے کہ وہ یہ کہ رہا ہے کہ الیکشن کمشن آزاد آئینی ادارہ ہے وہ پارلیمنٹ کو اخراجات کی تفصیلات دینے کا پابند نہیں ،کیونکہ وہ آزاد آئینی ادارہ ہے کسی وزارت کے ماتحت ہے نہ سینٹ و قومی کی کسی کمیٹی کو معلومات دینے کا پابند ہیں پھر سوال یہ ہے کہ اگر آپ کے معاملات اتنے شفاف ہیں تو پھر ڈر کیا ہے ۔کیاآپ کے ملازمین کی تنخواہیں ،اخراجات ، مراعات، عام انتخابات کے اخراجات اور غیر ملکی دورے عوام کی جیبوں اور تاجروں سے جمع شدہ ٹیکس سے ادا نہیں ہوتے ،ملک بیرونی امداد اور قرضے لیتاہے کیا اس مد میں قومی خزانے سے رقوم آپ کو نہیں دی جاتی ،لیکن وہ ان معاملات سے اپنے آپ کو شاید بالائے طاق سمجھتے ہیں ؟،اس بات کو سمجھتے سے تو پھر عام لوگ قاصر ہی ہیں بقول شاعر
’’ سمجھنے ہی نہیں دیتی سیاست ہم کوچائی
کبھی چہرہ نہیں ملتا کبھی درپن نہیں ملتا ‘‘
رہ گئی بات پاکستان کے معاشی حالات کی درستگی کی، تویہ بڑاواضح ہے کہ جب تک ہم داخلی اور خارجی محاذوں پر مضبوط نہیں ہوتے اس وقت تک ہمیں صیح منزل کی جانب راستہ نہیں ملے گا ،ہمیں اپنے اور دشمنوں میں فقر کرنا ہڑے گا کیونکہ محسن نقوی کا یہ بیان بڑے سوالات کو جنم دے رہا ہے کہ دہشتگرد زیادہ تو وہی ہیں جو معاہدے کے تحت چھوڑے گئے ہیں ،بلوچستان میں 26اگست کا واقعہ ہمارے لئے ایک بڑا سبق ہے کیا ہمیں افغان پالیسوں کو از سر نو نظر ثانی کرنا پڑے گی۔ کیونکہ موجودہ وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ اس کو دیکھیں ،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے اداروں اور عوام کا حوصلہ پست نہیں ہوا مگر کسی بات کی کوئی حد ہوتی ہے ہمیں سوچنا چاہئے کیونکہ حالات ایسے ہی ہیں
’’ مسلسل غم اٹھانے سے یہ بہتر ہے اگر مانو
کنارہ کرنے والوں سے کنارہ کر لیا جائے ‘‘