مقبوضہ کشمیر بھارت کی انسان دشمن پالیسیوں اور طاقت کے زور پر موجودہ دور میں لاکھوں انسانوں کے بنیادی حقوق غضب کرنے کی سب سے بڑی اور واضح مثال ہے۔ بھارت دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کو دبانے کی کوششوں میں مصروف ہے اور آج بھی یہ سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی اقدامات میں شدت آتی جا رہی ہے۔ بھارت نے مختلف اقدامات اور فیصلوں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کو بنیادی حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ اب مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے اور بھارتی حکومت ایک مرتبہ پھر اپنی فوج کے ذریعے مقبوضہ وادی میں خوف و ہراس پھیلانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ بھارتی حکومت ہمیشہ اپنی فوج کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے متوالوں کو نشانہ بنایا ہے اور اسلحے کے زور پر کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوشش کرتی رہی ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تڑپ میں کوئی کمی نہیں آئی، آزادی کی تحریک نئی نسل میں منتقل ہو رہی ہے لیکن آج بھی عالمی ادارے اور عالمی طاقتیں اس اہم ترین مسئلے کے حل میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں اور بھارتی افواج کشمیریوں پر ظلم و بربریت کی بدترین تاریخ رقم کر رہی ہیں۔
ایک مرتبہ پھر مقبوضہ کشمیر میں انتخابات سے قبل بہت بڑی تعداد میں نیم فوجی دستوں کی تعیناتی ہو رہی ہے۔ ہندوستان نے تین مرحلوں میں منعقد ہونے والے ریاستی انتخابات کے انعقاد کے لیے مقبوضہ وادی میں بڑی تعداد میں نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کا فیصلہ کیا ہے۔ مقبوضہ وادی میں ظالم بھارتی افواج کی زیر نگرانی اور خوف و ہراس کی فضا میں پہلے مرحلے کے لیے ووٹنگ اٹھارہ ستمبر، دوسرے پچیس ستمبر اور تیسرے اور آخری مرحلے میں یکم اکتوبر کو ہو گی۔ یہ ناجھٹلانے والی حقیقت ہے اور دنیا میں ہر جگہ یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ہندوستان کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکریت پسند اقوام متحدہ کا نامزد متنازعہ علاقہ ہے، جسے اکثر کشمیری عوام کھلی فضا میں جیل کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ ہندوستان نے مختلف من گھڑت بہانوں کے تحت مقبوضہ کشمیر میں مستقل طور پر سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کے عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ مذہبی تقریبات ہوں یا اسمبلی انتخابات، اضافی فوجیوں کی تعیناتی ہندوستانی حکومت کے ایجنڈے میں مسلسل سرفہرست ہے۔ یہ واضح ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے ان فوجیوں کی تعیناتی کا اصل مقصد کشمیری عوام کو خوفزدہ کرنا ہے۔ اضافی فوج کی تعیناتی کے ذریعے مقبوضہ وادی میں خوف کو بڑھانا ہے جو پہلے ہی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا شکار ہے۔
بھارتی افواج کے وحشیانہ اقدامات کو انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں جیسے کہ یو این ایچ آر، ایمنسٹی انٹرنیشنل، او آئی سی اور مختلف تنظیموں نے بڑے پیمانے پر تسلیم کیا ہے اور اسے بیان بھی کیا ہے، دنیا کے سامنے بھارتی مظالم تمام ثبوتوں اور ناقابل تردید شواہد کے ساتھ موجود ہیں۔ اس کے باوجود، بھارت نے زمینی حقائق کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کیا ہے، بجائے اس کے کہ جھوٹ، ریاستی سرپرستی میں جھوٹے فلیگ آپریشنز اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سرپرستی کے بے بنیاد الزامات کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے 2019 میں مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت کی غیر قانونی فیصلہ کیا اور اس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کے لیے بھی غیر قانونی حربے اختیار کیے ہیں۔ آرٹیکل تین سو ستر کی منسوخی کے بعد کشمیریوں کی مزید کڑی نگرانی کے وسیع نظام کی تنصیب، گرفتاریاں، صحافیوں اور سیاسی رہنماؤں کی من مانی نظربندیاں، کرفیو، اور انٹرنیٹ کی بندش جیسے اقدامات معمول، امن اور خوشحالی کے افسانے کو بے نقاب کرتے ہیں۔
کشمیری سیاسی رہنماؤں اور عوام کے درمیان ایک مضبوط تاثر ہے کہ حالیہ لوک سبھا انتخابات کے غیر متوقع نتائج نے مودی حکومت کو غیر جمہوری طریقوں کا سہارا لینے پر مجبور کیا ہے۔ مقبوضہ وادی میں خوف کا ایک ماحول موجود ہے، کیونکہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کا وزیر اعلیٰ لگانے اور ہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے بہت بے قرار و بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اقدامات قبل از انتخابات دھاندلی کے زمرے میں آتے ہیں، ان اقدامات کا مطلب صاف اور واضح ہے کہ نریندر مودی اور ان کے ساتھی طاقت کے زور پر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے اور کشمیریوں کی حقیقی آواز اور خواہشات کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ آج یہ حالات دنیا کے لیے چیلنج ہیں، بین الاقوامی برادری کو فوری طور پر ہندوستان کے غیر قانونی اقدامات کا نوٹس لینا چاہیے۔ بھارتی حکومت کے ان اقدامات کا مقصد صرف اور صرف انتخابات میں اپنے ہم خیالوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ نریندرا مودی کے متعصب سوچ رکھنے اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نبھانے والوں کا مقصد مقبوضہ وادی میں غیر قانونی طور پر ریاستی طاقت اور اختیارات استعمال کرتے ہوئے ہندو اکثریت قائم کرنا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد مقبوضہ وادی میں ریاستی انتخابات میں ہیرا پھیری کرنا ہے۔
عالمی طاقتوں اور اداروں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر دو ایٹمی طاقتوں کے مابین بنیادی مسئلہ ہے۔ اگر خطے اور دنیا میں پائیدار امن کی طرف قدم بڑھانا ہے تو پھر عالمی طاقتوں اور اداروں کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کی طرف توجہ دینا ہو گی اور یہ مسئلہ کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق ہی حل ہونا چاہیے۔ دنیا کو نریندر مودی اور ان کے متعصب، امن دشمن اور جارحانہ سوچ کے حامل ساتھیوں کا محاسبہ کرنا ہو گا۔ آزادی کشمیریوں کا بنیادی حق ہے اور لاکھوں کشمیریوں کا آزادی جیسا بنیادی حق غضب کرنے والا ملک خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نہیں کہہ سکتا۔
آخر میں امجد اسلام امجد کا کلام
کیسی گہری بات ملی ہے ہم کو اک دیوانے سے
ساری گرہیں کھل جاتی ہیں ایک گرہ کھل جانے سے
آخر آخر سارے رشتے اک جیسے ہو جاتے ہیں
ملتی ہے ہر ایک حقیقت جا کر اک افسانے سے
خاموشی سے پھیل رہا تھا چاروں جانب سناٹا
کیسے سب کچھ بدل گیا ہے ایک آواز لگانے سے
دل رستے میں آن پڑی ہے کیسی الجھن آنکھوں کو
بستی تو ہے نئی نئی پر لوگ نہیں انجانے سے
کیا ہے جو اب نسلِ نو نے ہم کو ہنس کر ٹال دیا
ہم بھی کب اس دورِ جنوں میں سمجھے تھے سمجھانے سے
طاقت اور دولت کا نشہ بس اس کو ظاہر کر دیتا ہے
ورنہ فطرت کب بدلی حالات کے بدلے جانے سے
پہلے وہ خاموش رہا پھر یک دم شعلے پہن لیے
ہم نے اک دن پوچھی تھی اک بات کسی پروانے سے
ہونا یا نہ ہونا امجد ایک نظر کا دھوکہ ہے
رکتی ہے رفتار جہاں کب اپنے آنے جانے سے