اگر میاں نواز شریف کوئی بیان دیں اور میڈیا پر خبر یوں چلے کہ لندن کے معروف بزنس مین حسن نواز کے والد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ…الخ ۔ تو آپ کو کیسا لگے گا؟۔ یا جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کی اطلاع میڈیا ان الفاظ میں دے کر چکوال کے پٹواری نجف حمید کے بڑے بھائی فیض حمید کو گرفتار کر لیا گیا ہے تو آپ کیسا محسوس کریں گے۔ یا کوئی اخبار سعودی ولی عہد کے بارے میں خبر یوں چھاپے کہ ریاض صوبے کے سابق گورنر شہزادہ ترکی کے بڑے بھائی محمد بن سلمان گزشتہ روز دورے پر فلاں ملک کے دارالحکومت میں پہنچ گئے تو آپ کتنی دیر تک سر کھجاتے رہیں گے؟۔
لیکن آپ کہیں گے کہ یہ تو فضول مفروضے ہیں ، میڈیا ایسا تو کبھی کرتا ہی نہیں۔ آپ ایسا کہہ سکتے تھے__ ماضی میں !۔ اب نہیں۔ کسی نے توجہ ہی نہیں دی کہ آکسفرڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے الیکشن کے حوالے سے جو بحث برطانوی اخبارات میں چھڑی ہوئی ہے، اس کا سب سے زیادہ قابل ذکر مضمون وہ ہے جو گارجین اخبار نے چھاپا۔ اس مضمون کی پہلی سطر ہی یہی ہے کہ لیڈی جمائما گولڈ سمتھ کے سابق شوہر عمران خان یونیورسٹی کے چانسلر کا انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔
اب کہئے، آپ کیا محسوس کر رہے ہیں۔ اس سے تو اچھا تھا کہ پہلی سطر یوں ہوتی کہ ماضی میں کرکٹ کے مشہور کھلاڑی عمران خان الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ غنیمت ہے، اخبار نے تعارفی فقرہ یوں ہی لکھ دیا کہ ماضی کی معروف بھارتی اداکارہ زینت امان کے سابق دوست یونیورسٹی چانسلر شپ کے الیکشن کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔ اخبار کا مضمون نگار اور ایڈیٹر دونوں ہی آداب صحافت سے ناواقف لگتے ہیں۔ صحیح تعارف، انصاف پسندی کا تقاضا تھا، یوں ہوتا کہ پاکستان کی مشہور ملکہ رحونیات کے خاوند دوئم الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ لیکن اب کیا کیجئے، اخبار نے سخت زیادتی تو کر ڈالی۔
______________
خان صاحب نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں عرضی ڈال دی ہے کہ حکومت نجف حمید کے بھائی صاحب عرف فیض حمید کے کورٹ مارشل کے ضمن میں انہیں بھی دھر لینے کا ارادہ رکھتی ہے، اسے روکا جائے۔ عدالت نے اعتراض لگایا ہے کہ دھر لینے کا ارادہ ہی ہے، ابھی دھر پکڑا تو نہیں، اس لئے ابھی سے کیسے روک دیں وغیرہ۔
اصل بات عرضی کی یہ ہے کہ اس کے مطابق فیض حمید سلطانی گواہ بن جائیں گے اور جب وہ سلطانی گواہ بن جائیں گے تو میرا نام لیں گے، مجھے بھی ملّوث کریں گے اور جب وہ میرا نام لیں گے، میرے خلاف گواہی دیں گے تو پکڑنے والے مجھے بھی پکڑ لیں گے۔
اب اس نکتے پر میڈیا میں شور برپا ہے کہ خان کو کیسے پتہ کہ نجف حمید کے بڑے بھائی (یا شاید چھوٹے بھائی) ان کے خلاف گواہی دینے والے ہیں، ان کے خلاف سلطانی گواہ بننے والے ہیں۔
ایک کندہ نا تراش قسم کے میڈیا پرسن نے بھپتی کسی کہ خان کی داڑھی میں تنکا۔ ملاحظہ کیجئے ، کیسی بے خبری سی بے خبری ہے۔ خان کی تو داڑھی ہی نہیں ہے، تنکا کہاں سے آ گیا؟ کچھ نے کہا ولی راولی می شناسد کا معاملہ ہے۔ دونوں بابرکت ہستیاںہم ولایت رہی ہیں، نو مئی کا ’’یوم کرامات‘‘ دونوں زندہ دلیوں کی زندہ کرامت تھا۔ اب ایک ولی پکڑا گیا تو دوسرے کا ’’می شناسد‘‘ تو ہونا ہی ہے۔
لطیفہ یاد آ گیا۔ پتہ نہیں برمحل ہے کہ بے محل۔ ایک کلاکار کو بادشاہ نے بلایا __ دربان کو پتہ تھا بادشاہ اس کی کلا سے خوش ہو کر انعام دے گا۔ اس نے کلاکار سے کہا، اندر تب جانے دوں گا جب یہ وعدہ کرو کہ جو ملے گا، اس کا آدھا تم مجھے دو گے۔ کلاکار دل ہی دل میں برہم ہوا اور کہا تمہیں تو ایسا مزہ چکھائوں گا کہ یاد کرو گے۔ اندر جا کر کلاکاری کی ، بادشاہ نے خوش ہو کر کہا، مانگو کیا مانگتے ہو۔ کلاکار نے کہا، مہاراج ! مجھے سو جوتے لگائے جائیں۔ بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا یہ کیا مانگ رہے ہو۔ کلاکار نے کہا مہاراج ، وعدے سے مت مکرئیے۔ آپ نے فرمایا تھا جو مانگو گے ملے گا۔ اب میں یہی مانگ رہا ہوں کہ مجھے سو جوتے لگائے جائیں۔ بادشاہ نے مجبوراً یہی کرنے کا حکم دیا۔ پچاس جوتے لگ چکے تو کلاکار نے کہا، باہر میرا ساتھی کھڑا ہے۔ ہم دونوں کے بیچ معاہدے کے تحت باقی پچاس جوتے اسے لگائے جائیں۔
یعنی ففٹی ففٹی والا معاہدہ۔ دونوں کی زندہ دلیری کے درمیان ففٹی ففٹی کا جو معاہدہ ہوا تھا ، آپ کے علم میں ہے۔ بس، اس سے زیادہ کیا لکھیں!
______________
کمپوزنگ میں کمپیوٹر ایرر‘‘ کی وجہ سے کبھی ایسی غلطی ہو جاتی ہے کہ قاری تو دور کی بات، خود لکھنے والے کی بتّی گل ہو جاتی ہے کہ یہ کیا چھپ گیا۔ گزشتہ سے پیوستہ کالم کے آخری پیر کی آخری دو سطروں میں تو کمال سے بڑھ کر کمال ہو گیا۔ (ویسے تو ہر روز ہی کئی ایک کمالات ہوتے ہیں لیکن یہ سطریں تو ماورائے کمال ہی ہو گئیں)۔
بیشتر قارئین تو سر جھٹک کر نکل گئے ہوں گے لیکن جو اٹک گئے، ان کیلئے دونوں سطریں دوبارہ پیش ہیں۔
’’پھر گارجین نے پے درپے دو جارحانہ قسم کے مضامین چھاپ دئیے۔ دامنِ ’’خان‘‘ خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا۔‘‘
______________
بلوچستان سے عام انتخابات میں غالباً ایک ہی صاحب قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ وہ بھی استعفیٰ دے گئے۔ اب قومی اسمبلی میں بلوچوں کی کوئی نمائندگی نہیں رہی۔
مطلب ارکان تو بہت ہیں لیکن وہ ’’بلوچوں کے نہیں، ’’باپ‘‘ کے نمائندے ہیں یا از قبیل باپ دوسری جماعتوں کے۔ بلوچستان جس آگ میں جل رہا ہے۔ باپ اور از قبیل باپ پارٹیوں کا اس میں پورا پورا حصہ ہے۔ آگ مشرف نے لگائی، اس کے بعد ہر آنے والے نے بھڑکائی۔ موجودہ عسکری قیادت بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کیلئے پوری طرح سنجیدہ اور مخلص ہے۔ لیکن حکومت سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ سنجیدہ ہوتی تو اس طرح کے بیانات کیوں دیتی کہ بلوچستان کی ساری گڑ بڑ محض ایک ایس ایچ او کی مار ہے۔ حکومت بلوچستان کی صورتحال کو ، بظاہر ، ایک قابل دید تماشا سمجھ رہی ہے۔ اختر مینگل نے جو کچھ اس موقع پر کہا، بہت حساس کہا، اخبارات نے وہ باتیں نہیں چھاپیں۔
حکومت سے اتنی سنجیدگی کی توقع بھی شاید عبث ہو گی کہ وہ اختر مینگل کو استعفیٰ واپس لینے کیلئے قائل کرے۔