اسلام آباد (وقائع نگار+ خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ ) جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ دہشت گردی کی ذمہ داری افغانستان پر عائد کرنے کے بجائے اپنی ذمہ داریوں کو دیکھا جائے، سرحدوں پر ہم بیٹھے ہیں افغانستان نہیں۔ قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری مسلح افواج پر حملے ہوئے اداروں پر حملے ہوئے اس پر ایوان غور نہیں کرے گا تو کون کرے گا؟ ہم صورتحال کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے، دونوں طرف صورتحال جذباتی ہوگئی ہے ایک فریق اس حد تک چلا گیا ہے کہ علیحدگی کی بات شروع کردی ہے اور دوسری طرف طاقت کے ذریعے ان سے نمٹنے ریاست کے تحفظ کے لیے آ خری حد تک جانے کے لیے تیار ہیں ایسے بیانات صورتحال کو مزید جذباتی بنادیتے ہیں، دونوں طرف سے انتہاوں پر پہنچا یہ عمل پاکستان کی سلامتی پر سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ فضل الرحمان نے کہا کہ ان سارے معاملات کو سیاسی لوگ ہی درست کرسکتے ہیں مگر آج سیاسی لوگوں کی اہمیت کو کم کیا جارہا ہے، معاملہ فہم اور تجربہ کار سیاسی قیادت کو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے اس کی جگہ نئے نوجوان لیں گے جو تجربہ کار نہیں ہوتے جذباتی ہوتے ہیں اس وجہ سے معاملات مزید الجھ جاتے ہیں۔ سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ سیاست دانوں کو بااختیار بناکر معاملات ان کے حوالے کیے جائیں سب چیزیں خود میں سمیٹنا اور سارے معاملے کے لیے فیصل آباد کا گھنٹہ گھر بن جانا، ہر چیز کے لیے خود امرت دھارا بن جانا ایک خواہش تو ہو سکتی ہے مگر یہ کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا، کیا حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ فیصلہ کرسکے اور اپوزیشن کو اعتماد میں لے سکے؟ اور پارلیمان کوئی قدم اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات مخفی نہیں کہ خطہ پاکستان پراکسی وار کا میدان جنگ بنا ہوا ہے، امریکا چائنا، سی پیک گوادر یہ سارے معاملات وہ ہیں کہ ایک فریق سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، میگا پروجیکٹس کے سامنے رکاوٹیں کھڑی ہوگئی ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت سے بلوچستان کی طرف جائیں یہ سی پیک کا ایریا ان کے قبضے میں ہے اور اس وقت وہاں کوئی ترقیاتی کام ممکن نہیں۔ انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں حالات یہاں تک چلے گئے ہیں کہ وہاں کچھ علاقوں میں پاکستان کا ترانہ نہیں پڑھا جا سکتا جھنڈا نہیں لہرایا جاسکتا، یہاں تک صورتحال چلی گئی، اس نازک صورتحال میں ہمیں قدم اٹھانا چاہیے، حکومت بھی ذمہ داری پوری کرے، اپوزیشن میں ہیں مگر ملک کو ضرورت ہے تو ہم حاضر ہیں، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں اور قائدین کو ملک کے لیے غیر ضروری سمجھنا سب سے بڑی حماقت ہے۔ فضل الرحمان نے کہا کہ سندھ میں ڈاکوؤں کا راج ہے وہاں کچے کی صورتحال سے سب واقف ہیں مگر بلوچستان میں سٹیٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے، پارلیمنٹ سے کہا جائے وہ آگے بڑھے اور بلوچستان میں جاکر لوگوں سے بات کرے، کے پی میں امن کی صورتحال مخدوش ہے وہاں لوگوں سے بات کرے تو صورتحال کو درست کیا جا سکتا ہے مگر جو طریقہ اپنایا جا رہا ہے اس سے صورتحال مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ریاست ناکام ہو جاتی ہے تو ہم جاکر صورتحال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ میں افغانستان گیا، وہاں تمام شعبہ جات میں بات چیت کرکے کامیابی کے ساتھ واپس آیا اور وزارت خارجہ سمیت حکومت کو آگاہ کیا اور وہ مطئمن ہوئے، جیسے ہی حملہ ہو فوراً الزام عائد ہو جاتا ہے کہ افغانستان کے لوگ تھے، کیا افغانستان کے لوگ مجرم ہیں؟ اگر یہ لوگ افغانستان سے ایک یا دو چوکیاں عبور یہاں پہنچتے ہیں مگر کوئٹہ سے لے کر بشام تک ڈھائی سو چوکیاں ہیں دہشت گردوں کا انہیں عبور کرجانا کیا وہ بھی افغانستان کی ذمہ داری ہے؟ سرحدوں پر ہماری فوج ہے ان کی تو فوج ہی نہیں؟ ہمیں ذمہ داری کسی اور پر عائد کرنے کے بجائے اپنی ذمہ داریوں کو دیکھنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کے معاملے میں ذمہ داری حکومت کی ہے وہ اہل خانہ کو آگاہ کرے کہ ان کا عزیز کدھر ہے، زندہ ہے یا مرگیا، جیل میں ہے یا کہیں بھاگ گیا، انہیں پتا چلنا چاہیے کہ ان کا بچہ کدھر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ آرمی پبلک سکول کے سانحے سے ایک سال قبل ایک نوجوان کو پکڑا گیا اور جب سانحہ آرمی پبلک اسکول کے جرم میں پھانسیاں دی گئیں تو اس نوجوان کو بھی شامل کیا گیا کہ یہ بھی آرمی پبلک سکول حملے میں ملوث ہے اور قاتل ہے پھر اسے بھی پھانسی دے دی گئی جسے ایک سال قبل پکڑا گیا تھا، میں چاہتا ہوں قوم فوج پر اعتماد کرے مگر ایسے اقدامات سے نفرت میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ نفرت آئندہ چند نسلوں میں بھی ختم نہیں ہوگی۔ علاوہ ازیں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جیسے کیسے بھی ہیں فارم 47 کے ہیں یا فارم 45 کے ہیں لیکن ہم اس ایوان میں بیٹھے ہوئے ہیں dejure نہ سہی defecto سہی انہی سے آپ کو کام لینا ہوگا ان کا اپنا ملازم سمجھ کر یہ صرف اس لئے بیٹھے ہیں جب ریاست چاہے گی کہ ترمیم کر لیں تو انہی سے کرائیں گے ہم اپنے مفاد کیلئے قانون بنائیں گے تو انہی سے قانون بنائیں گے انہی کو استعمال کیا جائے گا۔ ہم اداروں کے استعمال کیلئے یہاں نہیں بیٹھے ہوئے ہم آزادی سے ملک اور قوم کی خدمت کرنے کیلئے بیٹھے ہوں۔ علاوہ ازیں سردار اختر جان مینگل کی جے یوآئی سربراہ مولانا فضل الرحمان کی رہائشگاہ آمد سردار اختر جان مینگل اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان تفصیلی ملاقات ہوئی، مختلف سیاسی امور پر بات چیت ہوئی ملاقات میں علامہ راشد سومرو ، ا نجینئر ضیا الرحمان، ساجد ترین شریک تھے۔ مزید برآں نوائے وقت رپورٹ کے مطابق اپوزیشن اتحاد نے اختر مینگل کو اے پی سی میں شرکت کی دعوت دے دی ہے۔ علاوہ ازیں دریں اثناء وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور اور وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی مینگل) کے سربراہ اختر مینگل سے ملاقات مثبت رہی اور انہوں نے استعفیٰ واپس لینے سے متعلق حکومتی درخواست منظور کرلی تاہم اختر مینگل نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا استعفیٰ واپس لینے کا کوئی ارادہ نہیں۔ حکومتی وفد سے مذاکرات کے بعد پارلیمنٹ لاجز میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ استعفیٰ واپس نہیں لے رہا اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ ہے، وہ مجھے قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن لگتا ہے کہ میں نے انہیں قائل کر لیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ میں نے جبر و تشدد اور بلوچستان کے استحصال کا مسئلہ ہر حکومت میں اٹھایا، حکومت ریاست بلوچستان کے مسائل سمجھ نہیں پا رہی، انہوں نے کسی مشکل زبان میں بات نہیں کی۔ ہم ریاست اور بلوچستان کے درمیان ایک کلوٹ تھے، بلوچستان اور ریاست کے درمیان بڑے پلوں کو واہ فیکٹری کے بارود سے اڑا دیا گیا۔ حکومت نے اختر مینگل کا قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ منظور نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اس سلسلے میں ان سے مذاکرات کے لیے وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی۔ وفد میں طارق فضل چوہدری، خالد مگسی، اعجاز جکھرانی شامل تھے۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی وفد بیرسٹر گوہر کی سربراہی میں اختر مینگل سے ملنے پارلیمنٹ لاجز پہنچا۔ وفد میں اسد قیصر، رؤف حسن اور دیگر رہنما شامل تھے۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی وفد نے اختر مینگل کو استعفیٰ واپس لینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ استعفیٰ دینا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور استعفیٰ دیے بغیر پارلیمنٹ میں آگے بڑھیں۔ پارلیمنٹ لاجز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ اختر مینگل سے ملاقات کی ہے جس میں اختر مینگل نے استعفے پر نظر ثانی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ علاوہ ازیں سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے استعفے پر کارروائی روک دی ہے۔ ذرائع سپیکر آفس کے مطابق حکومت نے سپیکر سے سردار اختر مینگل کا استعفیٰ منظور نہ کرنے کی درخواست کی تھی جس پر کارروائی روکی گئی۔ سیکرٹری اسمبلی نے آج اختر مینگل کا استعفیٰ سپیکر کو پٹ اپ کیا تھا۔