قومی اسمبلی: آئی پی پیز کیخلاف حکومتی، اپوزیشن ارکان ایک

Sep 05, 2024

اسلام آباد( وقائع نگار +نوائے وقت رپورٹ)  قومی اسمبلی میں آئی پی پیز کیخلاف حکومتی و اپوزیشن جماعتیں ایک زبان ہوگئیں اور نجی بجلی گھروں کے جائزے کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔ سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں وقفہ سوالات میں مہرین بھٹو نے کہا کہ آئی پی پیز کے چارجز کی وجہ سے عوام شدید متاثر ہیں۔ پی پی پی رکن قومی اسمبلی آصفہ بھٹو زرداری نے گھریلو گیس کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ اٹھایا جس پر وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے جواب دیا کہ ملکی گیس کے وسائل دن بدن کم ہورہے ہیں، باہر سے مہنگی گیس لاکر سستی بیچ نہیں سکتے، خزانہ اس قابل نہیں کہ بوجھ اٹھا سکے۔ سید حسین طارق نے ایران کے ساتھ گیس منصوبے کی عدم تکمیل پر کہا کہ کچھ دن پہلے ایران نے پاکستان کو حتمی نوٹس دیا ہے، ایران کے ساتھ کام کہاں تک پہنچا، پائپ لائن منصوبے میں 18 بلین کی پینلٹی کہاں سے بھریں گے۔ وفاقی وزیر مصدق ملک نے جواب دیا کہ اٹھارہ بلین کی بات کہیں بھی نہیں ہوئی ہے، ایرانیوں نے اس کا ذکر نہیں کیا، اس معاملے میں بہت زیادہ پیچیدگیاں ہیں، بین الاقوامی پابندیوں کے عوامل بھی ہیں۔ اپوزیشن رکن علی محمد خان نے آئی پی پی پیز کی کارکردگی اور معاہدوں کا جائزہ لینے کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی پی پیز نے عوام کا خون نچوڑ لیا ہے، آئی پی پیز کی دلدل ہے جس میں پاکستان ڈوب چکا ہے، اس وقت آدھی سے زیادہ بجلی بن نہیں رہی، اس کے ہم پیسے دے رہے ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے۔ مصدق ملک نے تجویز دی کہ تمام پارٹیز کو اکٹھا بٹھا کر طریقہ کار طے کرلیں۔ راجہ پرویز اشرف نے بھی کہا کہ پورے ہاؤس کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے اور آئی پی پیز پر بحث ہو، یہ بہت گھمبیر کرائسز ہے ابہام دور ہونے چاہئیں۔ حنیف عباسی نے کہا کہ آئی پی پیز کا مسئلہ کتنا مشکل ہے جس نے پورے ملک کو گھیرے میں لیا ہوا ہے، سنا ہے ایک بند پلانٹ ہے وہ کروڑوں اربوں لے رہا ہے، یہ کون لوگ ہیں جو اربوں میں پیسے لے رہے ہیں، ان لوگوں کو بلائیں ان سے پوچھیں اگر نہیں مانتے تو کارروائی کریں۔جبکہ  وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ  میں پہنچ گئی ہے، ملکی بر آمدات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے، افراط زر اور مہنگائی میں کمی ہو رہی ہے۔ قومی اسمبلی اجلاس میں اراکین قومی اسمبلی اسد نیازی، جنید اکبر، شیر افضل اور دیگر کے نکتہ ہائے اعتراض پر جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ علی امین خان کے ساتھ طے کیا تھا کہ جہاں آپ کے تحفظات ہوں گے بیٹھ کر انہیں حل کریں گے، خیبر پختونخوا صوبے پر بہت مان ہے، جتنے پڑھے لکھے لوگ خیبر پختونخوا صوبے سے آ رہے ہیں وہ کسی دوسرے صوبوں سے نہیں آ رہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ پر پہنچ گئی ہے، بر آمدات میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے، افراط زر اور مہنگائی، تجارتی خسارے میں نمایاں کمی آ رہی ہے۔ موجودہ حکومت ملکی معیشت کو مشکلات سے نکال رہی ہے۔ تجارتی اعداد و شمار مثبت ہو رہے ہیں، ایف بی آر اہداف بھی حاصل ہوں گے۔ کراچی میں نکاسی آب کا مسئلہ موجود ہے۔کے ۔الیکٹرک کی کوئی غفلت سامنے نہیں  آئی۔ توجہ دلائو نوٹس کے جواب میں کہا بجلی کے نظام کو ٹھیک کرنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، صرف ان علاقوں میں لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے جہاں بجلی چوری یا لائن لاسز زیادہ ہیں، کپیسٹی کے مسائل بالکل نہیں ہیں،کپیسٹی پے منٹس کے حوالے سے نیشنل ٹاسک فورس قائم ہے جو پورے آ ئی پی پیز کے نظام پر نظرثانی کر رہی ہے۔ کے۔ الیکٹرک منصوبوں پر بھی ٹاسک فورس نظرثانی کرے گی، جو تحفظات ہیں انہیں دور کیا جائے گا۔  وزیر توانائی سے درخواست کریں گے کہ کے۔ الیکٹرک کا مینٹی نینس بجٹ بڑھایا جائے۔ خیبر پی کے میں گرڈ سٹیشنز بند کرانے پر پیسکو نے اس معاملہ پر قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے وقفہ سوالات کے دوران مہرین رزاق بھٹو کے سوال  کے  جواب میں انہوں نے بتایا کہ 200  یونٹ تک پروٹیکٹڈ صارفین کو 14 روپے فی یونٹ چارج کیا جاتا ہے، کل صارفین میں سے ایک کروڑ 70 لاکھ صارفین ماہانہ  200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں۔ ڈالر کی قدر میں اضافہ سے یہ ممکن نہیں کہ تمام صارفین کو پہلے 200 یونٹ پر 14 روپے فی یونٹ کے حساب سے ہی چارج کیا جائے اور  صرف اس سے زیادہ استعمال پر فی یونٹ چارجز میں اضافہ ہو۔ اورنگزیب کے سوال کے جواب میں اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئی پی پیز کو کیپسٹی پیمنٹ کے حوالے سے اچھی پیش رفت  ہے، ایس سی او میں چین کے وزیراعظم بھی شرکت کریں گے۔ جن علاقوں میں بجلی چوری کی شرح 20  فیصد تک جہاں وہاں لوڈشیڈنگ نہیں، جن علاقوں میں 30 فیصد تک لاسز ہیں وہاں دو گھنٹے، چالیس سے 60 فیصد تک پانچ سے چھ گھنٹے اور 80 سے 100 فیصد لائن لاسز والے علاقوں میں 12 لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، بجلی سرپلس ہے تاہم اس کی لاگت زیادہ ہے، لوڈ شیڈنگ بجلی کی کھپت میں کمی ، چوری اور بجلی بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ہوتی ہے، سمارٹ میٹرنگ کے لئے ورلڈ بینک 70 فیصد قرض دے گا ۔جہاں زیادہ مسائل ہیں وہاں سمارٹ میٹر سے بجلی چوری کی نشاندہی ٹرانسفارمر سے ہو سکے گی۔ اس  ایک میٹر  کی قیمت دو سو ڈالر  تک ہو گی ، اس کی فزیبلٹی اور منصوبہ بندی پر کام جاری ہے۔ عمر ایوب کے سوال کے جواب میں اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کنڈا سسٹم سمارٹ میٹرنگ سے بھی مکمل کنٹرول نہیں ہو گا تاہم  بجلی چوری والے ٹرانسفارمر کی نشاندہی ہو سکے گی۔جن علاقوں میں بجلی کی  چوری زیادہ ہے ان پر فوکس ہو گا ،  ورلڈ بینک اس کے لئے قرضہ فراہم کرنے پر راضی ہے۔
اسلام آبا( نوائے وقت رپورٹ )  وزارت توانائی پاور ڈویژن کی جانب سے قومی اسمبلی میں جمع دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتی ادارے بجلی واجبات کے 2کھرب 56  ارب روپے نادہندہ ہیں۔ قومی اسمبلی میں جمع دستاویزات کے مطابق وفاقی حکومتی ادارے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے 47 ارب 81کروڑ کے نادہندہ ہیں جب کہ صوبائی حکومتوں کے ماتحت ادارے بجلی کی مد میں ایک کھرب 51کروڑ کے نادہندہ ہیں۔ دستاویز کے مطابق وفاقی حکومت لیسکو کی 6 ارب 67 کروڑ،گیپکو کی 2 ارب 82 کروڑ،  فیسکو کی ایک ارب 72 کروڑ، آئیسکو کی 14 ارب 13 کروڑ، میپکو کی 2 ارب 18 کروڑ، پیسکو کی 2 ارب 22 کروڑ، حیسکو کی 5 ارب 53 کروڑ، سیپکو کی 9 ارب 13 کروڑ، کیسکو کی 2 ارب 40 کروڑ اور ٹیسکو کی 96 کروڑ روپے کی نادہندہ ہے۔ دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب حکومت 5 بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی 33 ارب 5 کروڑ، خیبر پختونخوا حکومت پیسکو اور ٹیسکو کی 26 ارب 25 کروڑ ، سندھ حکومت حیدرآباد اور سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی کی 54 ارب سے زائد جب کہ بلوچستان حکومت کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کی 38 ارب 29 کروڑ روپے کی نادہندہ ہے۔ دستاویز کے  مطابق آزاد جموں و کشمیر حکومت کے محکمے ڈسکوز کے 56 ارب 77کروڑ کے نادہندہ ہیں۔ پاور ڈویڑن کا کہنا ہے کہ حساسیت کے باعث ڈسکوز ان محکموں کے بجلی کنکشن منقطع نہیں کرتے مگر ادائیگی نہ کرنے پر سرکاری محکموں کو کنکشن کاٹنے کے نوٹسز دیے جاتے ہیں۔ علاوہ  ازیں  پیٹرولیم کے شعبے کا گردشی قرضہ 2897 ارب روپے تک پہنچ گیا جس میں 814 ارب روپے سود شامل ہے۔  وزارت توانائی نے قومی اسمبلی میں تفصیلات جمع کرادیں جس میں بتایا گیا ہے کہ گردشی قرضے میں رقم کا بڑا حصہ گیس کے شعبے سے متعلقہ ہے، 2013ء  سے 2023ء  کے دوران صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہونے سے ٹیرف میں فرق آگیا،  شوگر ملز کے گنے کے پھوک سے 259 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پرائیویٹ پاور اینڈ انفرا اسٹرکچر بورڈ انرجی مکس کو متنوع بنانے کے حکومتی وڑن پر عمل پیرا ہے۔ 

مزیدخبریں