اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے پاکستان انجینئرنگ کونسل کی تقریب سے خطاب میں کہا ہے کہ آبادی بڑھنے سے تنازعات بڑھے اور کیسز کی تعداد بڑھی جس کی وجہ سے عدالتوں پر بوجھ بڑھا۔ دیہی علاقوں میں پرانا روایتی ثالثی کا نظام موجود ہے۔ شہری علاقوں میں ثالثی سینٹرز کے لئے پاکستان انجینئرنگ کونسل نے اہم اقدام اٹھایا ہے۔ سول کیسز میں زیادہ تعداد پراپرٹی سے متعلق کیسز کی ہے۔ لیگل کنٹریکٹ میں کمزوریوں سے تنازعات سامنے آتے ہیں۔ کنٹریکٹ ڈرافٹ کرنے کے لئے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے۔ تنازعات کی وجہ سے عدالتوں پر بہت بوجھ ہوتا ہے۔ منصوبوں کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ یہ چیز بیرونی سرمایہ کاری کو روکتی ہے۔ ثالثی سینٹرز سے وقت، پیسے اور سرمائے کی بچت ہوگی۔ لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ یہ سینٹرز کس طرح ثالثی کرائیں گے۔ ہم ترقی پذیر ملک میں سے بیرونی سرمایہ کاری آئے گی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن نے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستان میں ثالثی کے لئے قوانین نہیں ہیں۔ اسلام آباد کی حدود میں ثالثی کے لئے فریقین کی مرضی ہونی چاہئے۔ قانون میں لازمی ثالثی کی شرط رکھنی چاہئے۔ ثالثی نہ ہونے کی وجہ سے عدالتوں پر کیسوں کا بوجھ ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ اے ڈی آر سینٹرز کی پرفارمنس تمام سٹیک ہولڈرز کی رائے سے بہتر ہوگی۔ ان ثالثی سینٹرز میں جتنی مداخلت کم ہوگی اتنا بہتر ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں لوگ کہیں پاکستان کے ثالثی سینٹرز بہترین ہیں۔
ثالثی نظام کا فقدان، عدالتوں پر بوجھ بڑھا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
Sep 05, 2024