1973ءکے آئین کی 18 ویں آئینی ترمیم ضروری تھی۔
58(2)B کے اختیارات اور تیسری بار وزیراعظم، وزیراعلیٰ بننے پر پابندی ختم۔ دفعہ 48 کے تحت صدر مملکت خدا داد پاکستان اپنے فرائض کی ادائیگی میں منتخب وزیراعظم اور لیڈر آف دی ہاﺅس قومی اسمبلی سے مشاورت کریں گے۔ اسی طرح قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس کے دوران کوئی بھی آرڈیننس گزشتہ حکومت کی طرح پیش کیا جائے گا۔ صدر جمہوریہ پاکستان آئینی صدر ہوں گے اور وزیراعظم پاکستان وہ اختیار استعمال کریں گے۔ اسی طرح 17 ویں آئینی ترمیم 2003ء آئین پاکستان سے حذف ہو جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ تاہم اس ترمیم میں صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی خیبر پختون خواہ کا کنڈا کیسے داخل ہو گیا؟ اس نام کی تبدیلی کا تعلق کیسے اُبھرا آیا۔
قارئین! اس نام پختون خواہ کے پس منظر میں ایک طویل تاریخی پہلو موجود ہے اور یہ نام نظریہ پاکستان 3 جون 1947ءتقسیم ہند پلان اور پاکستان کے وجود کے خلاف سازش تھی۔ آپ 23 مارچ 1940ءکی قرار داد لاہور سے 14 اگست 1947ءکے سفر کا جائزہ لیں اور اس قرار داد کے الفاظ کا جائزہ لیں۔ شمال مغربی ہندوستان کے حصہ اور شمال مشرقی ہندوستان کے حصہ میں رہنے والے مسلمان جہاں ان کی اکثریت ہے ان کو ایک جدا آزاد اسٹیٹ مملکت کی شکل میں پرویا جائے۔ اس طرح قائداعظم محمد علی جناحؒ صدر آل انڈیا مسلم لیگ نے سارے ہندوستان بشمول شمال مغربی صوبہ سرحد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے زیر اہتمام جلسے کئے اور لوگوں کو تلقین کی کہ وہ مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھے ہو جائیں۔ تاکہ آپ کیلئے ایک آزاد خود مختار مملکت حاصل کی جائے۔ جہاں آزاد مملکت میں مسلمان اپنی آزادی کے ساتھ ترقی کریں۔ جہاں ہر ایک کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا تاہم صوبہ سرحد کے ہشت نگر اور چار سدہ کے اتمان زئی کانگریسی پختون نے زور لگایا کہ صوبہ سرحد کے 1946ءکے صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں انڈین کانگریس پارٹی نے 21 صوبائی نشستیں حاصل کیں اور مسلم لیگ نے 17 نشستیں حاصل کیں مسلمانوں کی کل 38 نشستیں تھی۔ صوبہ سرحد میں کانگریس پارٹی کی حکومت زیرکمان ڈاکٹر خان صاحب ہو گئی جو 22 اگست 1947ءتک رہی یہ موجودہ لوگ پختون خواہ والے عوامی نیشنل پارٹی والے کہنے لگے کہ صوبہ سرحد بھارت کا حصہ ہو جائے کیونکہ کانگریس نے ووٹ زیادہ حاصل کئے ان کی دوستی پنڈت نہرو اور گاندھی جی کے ساتھ تھی۔
اس پر صوبہ سرحد کے عوام نے اپنے جدا وطن کیلئے جلسے جلوس منعقد کئے۔ سول نافرمانی کی تحریک صوبہ سرحد ہری پور میں 28 فروری 1947ءکو ہوئی۔ پولیس ہمیں سول نافرمانی میں پکڑ کر لے گئی اور سارے صوبہ میں ہل چل مچ گئی پنڈت جواہر لعل نہرو جو 1946ءکے ہندوستان بھر کے الیکشن کے بعد عبوری حکومت کے انچارج تھے وہ صوبہ سرحد کے دورہ پر آئے انہوں نے عبدالغفار خان کے ساتھ صوبہ سرحد کے پٹھان علاقے کا دورہ کیا لوگوں نے ان پر پتھر برسائے۔ نہرو زخمی ہو گئے وائسرائے ہند لارڈ ماﺅنٹ بیٹن صوبہ سرحد پشاور آئے۔ انہوں نے عوام کا طوفان دیکھا کہ لوگ پاکستان زندہ باد کہہ رہے تھے اور مسلم لیگ کے ہمنوا تھے۔
چنانچہ وائسرائے ہند لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے صوبہ سرحد میں حالات کو دیکھ کر ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا۔ سرحد کا ریفرنڈم جولائی 1947ءکو ہوا۔ لوگوں نے پاکستان کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ ڈالے اس استفتاءمیں اتمان زئی کے خان عبدالغفار خان عرف سرحدی گاندھی نے کہا کہ نہ وہ پاکستان چاہتے ہیں، نہ بھارت کیونکہ وہ تقسیم ہند پلان کے خلاف ہیں۔ غفار خان نے گاندھی جی کو کہا ”آپ نے تقسیم ہند پلان منظور کرکے ہمیں پختونوں کو پنجابی بھیڑیوں کے سامنے ڈال دیا۔“ تو انہوں نے پختونستان کا ڈبہ رکھا یہ وہ سازش ہے جو میاں محمد نواز شریف کے علم میں نہیں کہ وہ نظریہ پاکستان کے منشور ڈھانچہ اور مقاصد کے خلاف پروگرام پختون خواہ ہے چند لوگوں کی سیاست ہے جو آج تک چل رہی ہے یہ لوگ نہ تو تعمیر معاشرہ چاہتے ہیں اور نہ پاکستان کی پائیداری کے حق میں ہیں۔ لسانی اور علاقائی سیاست سے معاشرہ کا تار پود بکھیرنا چاہتے ہیں۔
صوبہ سرحد کے نام کیلئے 18 ویں ترمیم میں کوئی حصہ نہیں۔ کیونکہ نہ تو نام کا مسئلہ صوبائی خود مختاری میں آتا ہے نہ ہی مضبوطی وطن میں یہ تو قدیم گمراہ کن سازش ہے جس کا مقصد ملک کی یکجہتی، اتحاد اور سلامتی کو لسانی اور علاقائی عصبیت سے دو چار کرنا ہے یہ وہ سازش ہے جس میں تقسیم ہند سے قبل ہندو اور انگریز شامل تھے اور یہ سازش مسلمانوں کے ملک کے خلاف تیار کی گئی تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ تقسیم ہند ہو جائے۔ ہندو کے نزدیک گاﺅ ماتا کو ذبیح کرنے کے برابر ہے۔
گویا مسلم لیگ (ن) کے قائد کی مدد، تعاون اور حمایت سے چار سدہ کے پختون لیڈرز کی دیرینہ خواہش خیبر پختون خواہ کی شکل میں پوری ہو گئی۔ سرحدی گاندھی کے پیروکاروں کی حسرت پوری ہوئی اور سرخ پوش اعزاز سمجھنے لگے۔ سرحدی گاندھی کو پاکستان کی مٹی یعنی قبر بھی ناپسند تھی اور وہ موت کے بعد اس زمین کا حصہ بھی نہیں ہونا چاہتے تھے۔ سرخ پوش سرخ ٹوپیاں پہن کر اپنے لیڈر عبدالغفار خان کی یاد میں بھنگڑے ڈال رہے ہیں خوشیاں منا رہے ہیں خوشی میں ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں۔ قیوم سٹیڈیم پشاور، مردان، بونیر، نوشہرہ اور چار سدہ میں خوشیاں منائی گئیں۔
گو میاں محمد نوازشریف نے نہ تو ریفرنڈم کا مطالبہ کیا، نہ لوگوں کی رائے کا سوچا، نہ اسمبلی کے ممبران کی رائے کا احساس کیا۔ وہ ان سرخ پوشوں کے سامنے ڈھیر ہو گئے۔ کیا شیر کے نشان والا انسان ایسا ہوتا ہے۔ یہ شیر کا نشان خان عبدالقیوم خان کا تھا۔ ہم ان کو شیر سرحد کہتے ہیں کہ خان اعظم نے ان ہشت نگری کے پٹھانوں کو جو پاکستان کے خلاف تھے۔ سبق دیا تھا بھابڑہ کے مقام پر ہمیشہ کی نیند سلا دیا تھا اور قبرستان میں فائرنگ کی۔ خان عبدالغفار خان کڑ کانگریسی لیڈر تھے۔ مہاتماگاندھی اور پنڈت نہرو کے ساتھ اُن کے بڑے مراسم تھے۔ ان لوگوں نے جامع پروگرام یوں بنایا ہوا تھا کہ سرحد بھارت میں شامل ہو جائے کشمیر کا راستہ گورداسپور کے ذریعے کیا جائے کشمیر اور سرحد ایک ہو جائیں۔ مشرقی پنجاب بھارت میں چلا جائے گا پاکستان صرف مغربی پنجاب رہ جائے پھر کشمیر کے دریاﺅں اور سرحد کے دریاﺅں کو روک لیا جائے گا۔ پھر پاکستان کہاں ہوگا؟ پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا.... ”کہ پاکستان بننے دو یہ چھ ماہ کے بعد ہماری طرف خود آ جائیں گے۔“
یہ وہ سازش تھی، دوسری طرف افغانستان میں بسنے والے پختون اور سرحد میں بسنے والے پختون اپنے آپ کو آرین کہلاتے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کو ہٹا کر ایک جدا پختونستان ریاست بنانے کے خواہش مند ہیں یہ لوگ تو اٹک تک پختون کا علاقہ سمجھتے ہیں لہذا یہ قدیم سازش تھی جس میں مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے ان کا ساتھ دیا تاکہ حکومت میں حصے دار ہو سکیں۔ ادھر مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے چودھری شجاعت حسین، ہم خیال گروپ، چودھری حامد ناصر چٹھہ اور فنکشنل مسلم لیگ نے پختون خواہ کے خلاف نوٹ لکھے اور مخالفت کی۔ گویا ان لوگوں نے ثابت کیا کہ وہ قائداعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ کے وارث ہیں۔ بڑی دلیری سے پختون خواہ نام کی مخالفت کی اور اختلافی نوٹ تحریر کیا۔
58(2)B کے اختیارات اور تیسری بار وزیراعظم، وزیراعلیٰ بننے پر پابندی ختم۔ دفعہ 48 کے تحت صدر مملکت خدا داد پاکستان اپنے فرائض کی ادائیگی میں منتخب وزیراعظم اور لیڈر آف دی ہاﺅس قومی اسمبلی سے مشاورت کریں گے۔ اسی طرح قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس کے دوران کوئی بھی آرڈیننس گزشتہ حکومت کی طرح پیش کیا جائے گا۔ صدر جمہوریہ پاکستان آئینی صدر ہوں گے اور وزیراعظم پاکستان وہ اختیار استعمال کریں گے۔ اسی طرح 17 ویں آئینی ترمیم 2003ء آئین پاکستان سے حذف ہو جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ تاہم اس ترمیم میں صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی خیبر پختون خواہ کا کنڈا کیسے داخل ہو گیا؟ اس نام کی تبدیلی کا تعلق کیسے اُبھرا آیا۔
قارئین! اس نام پختون خواہ کے پس منظر میں ایک طویل تاریخی پہلو موجود ہے اور یہ نام نظریہ پاکستان 3 جون 1947ءتقسیم ہند پلان اور پاکستان کے وجود کے خلاف سازش تھی۔ آپ 23 مارچ 1940ءکی قرار داد لاہور سے 14 اگست 1947ءکے سفر کا جائزہ لیں اور اس قرار داد کے الفاظ کا جائزہ لیں۔ شمال مغربی ہندوستان کے حصہ اور شمال مشرقی ہندوستان کے حصہ میں رہنے والے مسلمان جہاں ان کی اکثریت ہے ان کو ایک جدا آزاد اسٹیٹ مملکت کی شکل میں پرویا جائے۔ اس طرح قائداعظم محمد علی جناحؒ صدر آل انڈیا مسلم لیگ نے سارے ہندوستان بشمول شمال مغربی صوبہ سرحد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے زیر اہتمام جلسے کئے اور لوگوں کو تلقین کی کہ وہ مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھے ہو جائیں۔ تاکہ آپ کیلئے ایک آزاد خود مختار مملکت حاصل کی جائے۔ جہاں آزاد مملکت میں مسلمان اپنی آزادی کے ساتھ ترقی کریں۔ جہاں ہر ایک کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا تاہم صوبہ سرحد کے ہشت نگر اور چار سدہ کے اتمان زئی کانگریسی پختون نے زور لگایا کہ صوبہ سرحد کے 1946ءکے صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں انڈین کانگریس پارٹی نے 21 صوبائی نشستیں حاصل کیں اور مسلم لیگ نے 17 نشستیں حاصل کیں مسلمانوں کی کل 38 نشستیں تھی۔ صوبہ سرحد میں کانگریس پارٹی کی حکومت زیرکمان ڈاکٹر خان صاحب ہو گئی جو 22 اگست 1947ءتک رہی یہ موجودہ لوگ پختون خواہ والے عوامی نیشنل پارٹی والے کہنے لگے کہ صوبہ سرحد بھارت کا حصہ ہو جائے کیونکہ کانگریس نے ووٹ زیادہ حاصل کئے ان کی دوستی پنڈت نہرو اور گاندھی جی کے ساتھ تھی۔
اس پر صوبہ سرحد کے عوام نے اپنے جدا وطن کیلئے جلسے جلوس منعقد کئے۔ سول نافرمانی کی تحریک صوبہ سرحد ہری پور میں 28 فروری 1947ءکو ہوئی۔ پولیس ہمیں سول نافرمانی میں پکڑ کر لے گئی اور سارے صوبہ میں ہل چل مچ گئی پنڈت جواہر لعل نہرو جو 1946ءکے ہندوستان بھر کے الیکشن کے بعد عبوری حکومت کے انچارج تھے وہ صوبہ سرحد کے دورہ پر آئے انہوں نے عبدالغفار خان کے ساتھ صوبہ سرحد کے پٹھان علاقے کا دورہ کیا لوگوں نے ان پر پتھر برسائے۔ نہرو زخمی ہو گئے وائسرائے ہند لارڈ ماﺅنٹ بیٹن صوبہ سرحد پشاور آئے۔ انہوں نے عوام کا طوفان دیکھا کہ لوگ پاکستان زندہ باد کہہ رہے تھے اور مسلم لیگ کے ہمنوا تھے۔
چنانچہ وائسرائے ہند لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے صوبہ سرحد میں حالات کو دیکھ کر ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا۔ سرحد کا ریفرنڈم جولائی 1947ءکو ہوا۔ لوگوں نے پاکستان کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ ڈالے اس استفتاءمیں اتمان زئی کے خان عبدالغفار خان عرف سرحدی گاندھی نے کہا کہ نہ وہ پاکستان چاہتے ہیں، نہ بھارت کیونکہ وہ تقسیم ہند پلان کے خلاف ہیں۔ غفار خان نے گاندھی جی کو کہا ”آپ نے تقسیم ہند پلان منظور کرکے ہمیں پختونوں کو پنجابی بھیڑیوں کے سامنے ڈال دیا۔“ تو انہوں نے پختونستان کا ڈبہ رکھا یہ وہ سازش ہے جو میاں محمد نواز شریف کے علم میں نہیں کہ وہ نظریہ پاکستان کے منشور ڈھانچہ اور مقاصد کے خلاف پروگرام پختون خواہ ہے چند لوگوں کی سیاست ہے جو آج تک چل رہی ہے یہ لوگ نہ تو تعمیر معاشرہ چاہتے ہیں اور نہ پاکستان کی پائیداری کے حق میں ہیں۔ لسانی اور علاقائی سیاست سے معاشرہ کا تار پود بکھیرنا چاہتے ہیں۔
صوبہ سرحد کے نام کیلئے 18 ویں ترمیم میں کوئی حصہ نہیں۔ کیونکہ نہ تو نام کا مسئلہ صوبائی خود مختاری میں آتا ہے نہ ہی مضبوطی وطن میں یہ تو قدیم گمراہ کن سازش ہے جس کا مقصد ملک کی یکجہتی، اتحاد اور سلامتی کو لسانی اور علاقائی عصبیت سے دو چار کرنا ہے یہ وہ سازش ہے جس میں تقسیم ہند سے قبل ہندو اور انگریز شامل تھے اور یہ سازش مسلمانوں کے ملک کے خلاف تیار کی گئی تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ تقسیم ہند ہو جائے۔ ہندو کے نزدیک گاﺅ ماتا کو ذبیح کرنے کے برابر ہے۔
گویا مسلم لیگ (ن) کے قائد کی مدد، تعاون اور حمایت سے چار سدہ کے پختون لیڈرز کی دیرینہ خواہش خیبر پختون خواہ کی شکل میں پوری ہو گئی۔ سرحدی گاندھی کے پیروکاروں کی حسرت پوری ہوئی اور سرخ پوش اعزاز سمجھنے لگے۔ سرحدی گاندھی کو پاکستان کی مٹی یعنی قبر بھی ناپسند تھی اور وہ موت کے بعد اس زمین کا حصہ بھی نہیں ہونا چاہتے تھے۔ سرخ پوش سرخ ٹوپیاں پہن کر اپنے لیڈر عبدالغفار خان کی یاد میں بھنگڑے ڈال رہے ہیں خوشیاں منا رہے ہیں خوشی میں ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں۔ قیوم سٹیڈیم پشاور، مردان، بونیر، نوشہرہ اور چار سدہ میں خوشیاں منائی گئیں۔
گو میاں محمد نوازشریف نے نہ تو ریفرنڈم کا مطالبہ کیا، نہ لوگوں کی رائے کا سوچا، نہ اسمبلی کے ممبران کی رائے کا احساس کیا۔ وہ ان سرخ پوشوں کے سامنے ڈھیر ہو گئے۔ کیا شیر کے نشان والا انسان ایسا ہوتا ہے۔ یہ شیر کا نشان خان عبدالقیوم خان کا تھا۔ ہم ان کو شیر سرحد کہتے ہیں کہ خان اعظم نے ان ہشت نگری کے پٹھانوں کو جو پاکستان کے خلاف تھے۔ سبق دیا تھا بھابڑہ کے مقام پر ہمیشہ کی نیند سلا دیا تھا اور قبرستان میں فائرنگ کی۔ خان عبدالغفار خان کڑ کانگریسی لیڈر تھے۔ مہاتماگاندھی اور پنڈت نہرو کے ساتھ اُن کے بڑے مراسم تھے۔ ان لوگوں نے جامع پروگرام یوں بنایا ہوا تھا کہ سرحد بھارت میں شامل ہو جائے کشمیر کا راستہ گورداسپور کے ذریعے کیا جائے کشمیر اور سرحد ایک ہو جائیں۔ مشرقی پنجاب بھارت میں چلا جائے گا پاکستان صرف مغربی پنجاب رہ جائے پھر کشمیر کے دریاﺅں اور سرحد کے دریاﺅں کو روک لیا جائے گا۔ پھر پاکستان کہاں ہوگا؟ پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا.... ”کہ پاکستان بننے دو یہ چھ ماہ کے بعد ہماری طرف خود آ جائیں گے۔“
یہ وہ سازش تھی، دوسری طرف افغانستان میں بسنے والے پختون اور سرحد میں بسنے والے پختون اپنے آپ کو آرین کہلاتے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کو ہٹا کر ایک جدا پختونستان ریاست بنانے کے خواہش مند ہیں یہ لوگ تو اٹک تک پختون کا علاقہ سمجھتے ہیں لہذا یہ قدیم سازش تھی جس میں مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے ان کا ساتھ دیا تاکہ حکومت میں حصے دار ہو سکیں۔ ادھر مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے چودھری شجاعت حسین، ہم خیال گروپ، چودھری حامد ناصر چٹھہ اور فنکشنل مسلم لیگ نے پختون خواہ کے خلاف نوٹ لکھے اور مخالفت کی۔ گویا ان لوگوں نے ثابت کیا کہ وہ قائداعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ کے وارث ہیں۔ بڑی دلیری سے پختون خواہ نام کی مخالفت کی اور اختلافی نوٹ تحریر کیا۔