حافظ محمد عمران
قومی سپر ایٹ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں فیصل آباد وولفز کی ٹیم فائنل میں سیالکوٹ سٹالینز کو شکست دے کر چیمپئن بن گئی ہے۔ مصباح الحق کی کپتانی میں فیصل آباد وولفز نے آٹھ سال بعد یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔ گزشتہ سات برس سے چیمپئن چلی آرہی سیالکوٹ سٹالینز کی ٹیم اس بار اپنے اعزاز کا دفاع کرنے میں ناکام رہی۔ سیالکوٹ کی ٹیم کے کپتان شعیب ملک نے جنہیں سیالکوٹ سٹالینز کی کامیابیوں کا کریڈٹ دیا جاتا ہے اس بار بھی اچھی کارکردگی دکھائی بالخصوص فائنل میں انہوں نے 40 رنز کی بہت اچھی اننگز کھیلی تاہم اُن کی ٹیم کے دیگر بلے باز اُن کا ساتھ دینے میں ناکام رہے۔
سپر ایٹ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ تو ختم ہو گیا مگر اپنے پیچھے کئی ”داستانیں“ چھوڑ گیا ہے۔ کراچی ڈولفنز کے تین اہم کرکٹرز فواد عالم، سہیل خان اور خالد لطیف کو کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن (کے سی اے) نے شوکاز نوٹس جاری کر دیئے ہیں اور ان کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی پر تحقیقات جاری ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان کھلاڑیوں کو ناقص کارکردگی پر نوٹس جاری کئے گئے۔ کراچی ڈولفنز کے دو کھلاڑیوں شاہ زیب حسن اور عاطف مقبول کو بھی وارننگ دیکر مستقبل میں محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ دوسری طرف لاہور لائنز کی فیصل آباد کے ہاتھوں سیمی فائنل میں دو رنز سے غیر متوقع شکست پر بھی لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ اس سلسلے میں تین رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے جو تمام معاملات کا جائزہ لینے کے بعد تحقیقاتی رپورٹ پیش کرے گی۔ ٹی ٹوئنٹی سپرایٹ کے سیمی فائنل میں لاہور لائنز کی ٹیم اچانک ہی اچھا کھیلتے کھیلتے ڈھیر ہو گئی تھی۔ اس غیر متوقع فتح کے نتیجہ میں فیصل آباد وولفز کے لئے ٹورنامنٹ میں فتح کی راہ ہموار ہوئی۔
قومی سطح کے اس اہم ٹورنامنٹ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے متعدد اہم کھلاڑی حصہ لے رہے تھے تاہم منصوبہ بندی کے فقدان اور نوجوان کھلاڑیوں کو مستقبل کے حوالے سے تیار کرنے کے بارے میں کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم میں اس وقت عمر رسیدہ کھلاڑیوں کی بہتات ہے، ہمارے زیادہ تر کھلاڑیوں کی عمریں 30 سے 35 برس کے درمیان ہے۔ ان میں سے کئی کھلاڑی ایسے ہیں جو آئندہ ورلڈ کپ تک اپنی فٹنس اور کارکردگی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ یونس خان، مصباح الحق، شعیب ملک، سعید اجمل، شاہد آفریدی سمیت کئی دیگر کھلاڑی ایسے ہیں جن کا متبادل تیار کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ ساری دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ سینئر کھلاڑیوں کے متبادل اُن کی موجودگی میں تیار کر لیے جاتے ہیں تاکہ ان کی ریٹائرمنٹ یا فٹنس کے مسائل کی صورت میں ٹیم کو فوری طور پر متبادل دستیاب ہو۔ مگر ہمارے یہاں لابی سسٹم اور گروپنگ کے علاوہ سازشی عناصر اس قدر مضبوط ہیں کہ وہ نئے اور باصلاحیت کھلاڑیوں کو سامنے آنے نہیں دیتے۔ سپرایٹ ٹی ٹوئنٹی میں بھی کئی برس سے وہی پرانے کھلاڑی کھیلتے آرہے ہیں اور اس میں بھی نئے کھلاڑیوں کو موقع نہیں دیا جاتا حالانکہ اگر پی سی بی حکام ذرا سی توجہ سے حکمت عملی ترتیب دیتے اور ہر ٹیم میں نوجوان ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کو موقع دیا جاتا تو مستقبل کے لئے کئی نوجوان کھلاڑی تیار کیے جاسکتے تھے۔
سپرایٹ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں غیر متوقع نتائج، تحقیقات اور شوکاز نوٹس سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنے والی بات ہے۔ اس میں پی سی بی حکام کی غفلت اور منصوبہ بندی کے فقدان کا اہم کردار ہے۔ حالانکہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھارت ٹی ٹوئنٹی لیگز اور ٹورنامنٹس سے اپنی ٹیموں کی کارکردگی کو بہت بہتر بنا چکے ہیں۔ ہ میں بھی اس حوالے سے حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی اور اس پر عمل درآمد بھی کرنا ہوگا۔