ہفتہ‘ 24 جمادی الاوّل ‘ 1434ھ ‘ 6 اپریل2013 ئ

 نواز شریف نے اختر رسول کو گلے لگا لیا۔اختر رسول رو پڑے....ع
 ” بہت دیر کی مہرباں روتے روتے“
 اگر پانچ سال قبل ہی ندامت کے آنسو بہہ جاتے تو پلوں کے نیچے سے اتنا پانی تو نہ گزرتا۔میاں نوز شریف نے بھی کنجوسی سے کام نہیں لیا بلکہ دونوں بازوں کھول کر پرانے یار غار کو کہا....ع
” آسینے نا لگ جا ٹھاہ کرکے“
 نصیبو لال نے بڑے تجربے کے بعد کہا تھا....
بچھڑن بچھڑن کردا ایں
جدوں بچھڑیں گا پتہ لگ جاﺅگا
 پرانی دوستیاں نئی کی جارہی ہیں الیکشن کے موسم بہار میں روٹھوں کو منایاجارہا ہے کیا ہی اچھا ہو جو چوہدری برادران اور میاں برادران بھی آپس میں گلے مل کر پرانی تلخیاں بھلا دیتے کیونکہ اتحاد میں ہی اتفاق ہے ریوڑ سے علیحدہ ہونے والی بکری کو شیر آسانی سے شکار کرلیتا ہے ویسے دونوں جانب آگ تو برابر لگی ہوئی ہے لیکن ” اَنا“ آڑے آئی ہوئی ہے بہرحال کوئی نہ کوئی بہانہ بننا ہے کیونکہ دونوں کو ڈیڑھ ڈیڑھ فٹ کی مسجد الگ الگ بنا کر نمازیوں کی تعداد کا پتہ چل گیا ہے سانجھے دوست تو دوریاں مٹانے کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ جاتی عمرہ اور ظہور الٰہی پیلس کے ایک حصے سے ایک ہی آواز آرہی ہے....
کوئی کرکے بہانہ سانوں مل ماہی وے
راتاں آ گیئاں چاننیاں
 الیکشن کا دور ہے ایک ایک ووٹ کیلئے امیدوار کوسات سات چکر کاٹنے پڑتے ہیں اس لئے دونوں اطراف سے یہی آواز ہے۔
٭....٭....٭....٭....٭
 بھارت کشمیریوں کو دہشت گردی کی عینک سے دیکھنا چھوڑ دے ورنہ حالات خراب ہوسکتے ہیں:عمر عبداللہ۔
 بھارتیوں کو گھر کی گواہی کے بعد اب کشمیریوں کے بارے تعصب کی عینک اتار دینی چاہئے۔ بھارتیوں نے عینک والے جن کی عینک تو نہیں لگا رکھی اس عینک میں تو سبھی مجرم نظر آتے ہیں۔بھارت تمام کشمیریوں کو دہشت گردی والی عینک لگا کر دیکھ رہا ہے وہ اپنا رویہ بدلے ورنہ کشمیری بھی بھارتیوں کو دہشت گردہی سمجھیں گے کیونکہ جیسا کرو گے ویسا بھروگے آپ پتھر مار کر آگے سے پھولوں کی امید مت رکھیں۔عمر عبداللہ گرچہ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ ہیں لیکن بھارتی جارحیت پر وہ چیخ اٹھے ہیں ،بھارت میں اگر کوئی مرغی بھی مرجائے تو وہ اسکا الزام کشمیری عوام پر لگادیتا ہے اسلئے بھارتیوں کو اب سوچ سمجھ کر کشمیریوں کے بارے اپنی زبان کھولنی چاہئے بھارتیوں کو بم دھماکوں اور مار دھاڑ پر اپنے ملک میں بھی ڈانگ پھیرنی چاہئے کیونکہ بھارت میں کچھ ایسی تنظیمیں ہیں جو بڑے بڑے لُچ تل کر کشمیریوں کو قربانی کا مرغا بنا لیتی ہیں اس لئے بھارت کو اب اپنی ترجیحات بدلنی ہوںگی کیونکہ چوری کھانے والے کَٹھ پتلی وزیراعلیٰ بھی اب جاگ اٹھے ہیں ،کٹھ پتلی کشمیری بولیں گے تو پورا کشمیر بولے گا۔ اسی میں کشمیریوں کی آزادی اور بقا مضمر ہے ۔حفیظ جالندھری نے کہا تھا
نظر آتی نہیں صورت حالات کوئی
 اب یہی صورتِ حالات نظر آتی ہے
٭....٭....٭....٭....٭
”3 ماہ کی بجائے 3سال خدمت“ نگران وزیر داخلہ کی زبان پھسلی یا سچ
 وقت کی تیزی کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی تیز ہوچکا ہے۔زبان سے نکلا جملہ اور کمان سے نکلا تیر واپس نہیں جاسکتا الیکٹرانک میڈیا نے یہ سچ کر دکھایا ہے۔نگران وزیر داخلہ کی میڈیا بریفنگ کے دوران زبان حقیقت میں پھسلی ہے یا سچی مچی انہیں 3 ماہ کی بجائے 3سال کیلئے نگران لگایا گیا ہے۔میڈیا نے دن بھر بات کا بتنگڑ بنائے رکھا ہر طرف چہ میگوئیاں ہورہی ہیں کہ الیکشن نہیں ہونگے نگران سیٹ اپ 3سال کیلئے ہے اب نگران وزیر داخلہ نے بھی 3سال خدمت کا بول کر عوام کو مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ دال میں کالا کالا ضرور ہے ورنہ نگران صاحب کی زبان نہ پھسلتی۔جناب داخلہ صاحب جب آپ نے شادی کیلئے قبول ہے قبول ہے کہا تھا تب تو آپکی زبان نہیں پھسلی ہوگی، اب یکدم چَن کیسے چڑھ گیا اگر 3سال کا کوئی پروگرام ہے تو پھر کھل کر عوام کے سامنے آئیں تاکہ کاغذات جمع کروانے پر جو تُو تُو مَیں مَیں ہورہی ہے یہ تو ختم ہو ۔ کہیں یہی عقدہ نہ کھلے کہ نگران حکومت....ع
” اگ لین آئی تے گھر دی مالکن بن بیٹھی“
 یہاں تو پہلے ہی بد امنی کی آگ لگی ہوئی ہے۔فخرو بھائی3ماہ ار 3سال والی گُتھی سلجھائیں، یہاں ضیاءالحق 3ماہ کیلئے آئے تھے لیکن گیارہ سال عوام کو آمریت کی سُولی پر لٹکائے رکھا۔مشرف نے بھی انتخاب کروانے کا وعدہ کیا تھا لیکن اسلام آباد کی جگمگ جگمگ کرتی بتیوں نے انہیں اپنے سحر میں لے لیا اور پھر آمریت بیٹھی رہی اب کی بار آمریت تو نہیں لیکن اگر طول دیا گیا تو پھر آمر نُما حکومت قائم ہوجائے گی۔
٭....٭....٭....٭....٭
 چٹھہ نے جونیجو لیگ بحال کردی۔ سابق وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن کے ٹکٹ کیلئے (ن) لیگ کے ضلعی صدر کے ترلے منتیں۔حامد ناصر چٹھہ کے بارے علی پور چٹھہ میں نعرہ مشہور ہے....
حامد ناصر چٹھہ
پیسے تے ڈِگا تے ڈھٹھا
 جہاں سے کوئی مراعات مل جائیں یہ سرکار انہی کے ہوجاتے ہیں۔بینظیر بھٹو،میاں نوازشریف اور پھر پرویز مشرف تک ہر گاڑی میں انہوں نے لفٹ لی شکر ہے میاں نواز شریف نے انہیں اس بار لفٹ نہیں دی،اسی بنا پر انہوں نے مایوس ہوکر جونیجو لیگ بحال کرنے میں عافیت سمجھی ہے۔چٹھہ صاحب بھی مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے والی سیاست کرتے ہیں ہمیشہ وہاں گرتے ہیں جہاں سے کوئی نوٹ ملیں۔سکندر حیات بوسن کل تک تو وفاقی وزیر تھے لیکن آج انہیںاپنے ٹکٹ کے ہی لالے پڑ چکے ہیں تحریک انصاف کے ہوتے ہوئے انہوں نے این اے 151سے آزاد کاغذات جمع کروائے لیکن ٹکٹ کیلئے ن لیگ کے ضلعی صدر کے ترلے کر رہے ہیں۔یہ لوگ جہاں کی ہوا چلے ادھر کا رخ کرنےوالے ہیں ۔انکا نظریہ صرف اور صرف پیسہ اور عہدہ ہوتا ہے ،وہ جیسے بھی ملے۔

ای پیپر دی نیشن