جوتا کہانی اور ”2“ YK

جنرل (ر) پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر کے ملک کے ساتھ ساتھ راقم کے ساتھ بھی جو سلوک روا رکھا اس پر ان کی زبان کی درازی کے ساتھ درازی¿ عمر کی دعا ہی کی جا سکتی ہے تاکہ موصوف موت کو ترستے پھرتے رہیں اور ساتھ ہی کہا جا سکتا ہے کہ....ع
”شرم تم کو مگر نہیں آتی“
دوران اقتدار اکثر مواقع پر جنرل صاحب پرویز مشرف مجھے یحییٰ خان نمبردو لگے اب وطن واپسی پر بھی انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی اگر ہوئی بھی تو یحییٰ خان نمبر دو نے وہی انداز اپنایا جو جنرل نیازی نے ،سرنڈر کے بعد اپنے ہم مرتبہ بھارتی جرنیل کو نہ صرف گندے لطیفے سنائے بلکہ پھر بھی کسی شرمندگی کے بغیر پوچھا کہ میں لڑا کیسا ہوں؟؟ ایسٹر کمانڈ کے تب کے سربراہ جنرل نیازی پر بھی بھارتی عوام کی طرف سے تب ایک جوتا پھینکا گیا تھا۔ اس کی ویڈیو بھی کسی میوزیم میں پڑی ہو گی بالکل اسی طرح ہم پاکستانیوں کا ان کی وردی بھی منہ چڑا رہی تھی جو مسلح افواج کے کچھ کارکنوں نے سنبھال کر رکھی ہے۔ اس ذریت کو بھی کفن کے ساتھ ساتھ پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا گیا۔ اب جنرل پرویز مشرف کو بھی بڑے پروٹوکول کے ساتھ پاکستان میں رکھ کر قوم کے دکھ میں اضافہ کیا جا رہا ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے آنے پر ڈاکٹر طاہرالقادری سے وہی کنٹینر ادھار لے لیا جاتا جو اب بیکار کھڑا ہے۔ ہم نے دنیا جہان میں جوتے مارنے والوں کی کہانیاں نہ سنائی ہیں نہ بتائی ہیں۔ جنرل نیازی والے جوتے کی فلم ہی ہمیں کئی سال سے بے چین کئے ہوئے ہے۔ ویسے بے حس بے شرم شخص کی حرکتوں کے سامنے کوئی بری سے بری مثال بھی اس مقابلے کے معیار پر پوری نہیں اتر سکتی۔ یہاں یحییٰ خان نمبر1 کی ایک اور بات بیان کر کے لئے اجازت چاہوں گا۔ مرحوم آئی جی چودھری سردار محمد کو72`71 میں شاید ایس پی کے رینگ تک ہی پہنچے تھے ان کی ڈیوٹی جنرل یحییٰ خاں کو عدالت میں لانے کی ہوتی تھی ایک دن حمودالرحمن کمشن میں پیش ہونے پر یحییٰ خان نے اپنی پسند کی راہ سے واپس جانے کی خواہش کی تھی اور شکایت کی کہ پولیس والے موصوف کو اس راستے سے نہیں لے جاتے۔ وہاں ایک ریلوے پھاٹک آتا تھا۔ بزدل یحییٰ خاں نے تب ہی سہالہ ریسٹ ہاﺅس کے ارد گرد کے گیدڑوں کی شکایت کی تھی کہ رات کو ان کی چیخوں اور شور شرابے سے موصوف کی نیند میں خلل آ جاتا ہے۔ بات کہیں لمبی ہو رہی ہے۔ ہم اختصار کے لئے اسی طرف آتے ہیں کہ ریلوے پھاٹک کے پاس جنرل یحییٰ خاں کو غیور طالب علموں نے جاتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے بھی جنرل یحییٰ پر جوتوں پتھروں کی بارش کر دی تھی جس کے بعد یحییٰ خاں نے گاڑی کے شیشے چڑھا دیئے تھے اور چوہے کی طرح دبک کر بیٹھ گئے تھے ہمارا خیال ہے کہ اگر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اسطرح ایک آدھ مرتبہ بے شک پروٹوکول سمیت ہی عدالت میں لایا گیا تو موصوف کا بھی نشہ ہرن ہو جائے گا۔ ہوش ٹھکانے آ جائیں گے ۔باتیں اور بھی یاد آ رہی ہیں مثلاً آنجہانی یحییٰ خاں ایک مرتبہ شراب اور اقتدار کے نشے میں بدمست جیپ میں ننگے کھڑے ہو کر جا رہے تھے۔ حفاظت کےلئے ڈیوٹی پر مامور ایک پولیس ملازم نے اس اوباش یحییٰ خاں کو اس حالت میں دیکھا تو اس سکیورٹی والے کی آنکھوں میں غیرت کی وجہ سے خون اتر آیا تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا گل چھرے اڑانے والے پرویز مشرف کو بھی کسی سکیورٹی والے کے غضب کا شنانہ بننا پڑے۔
ویسے یحییٰ خاں نمبر 2 کو تو ابھی ڈیرہ بگٹی بھی پہنچا دینا عین انصاف کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے کہ وہاں مرحوم اکبر بگٹی کے بیٹے طلال بگٹی نے جنرل صاحب کے سر کی قیمت ایک ارب مقرر کر رکھی ہے۔ ہمیں پوچھا جائے تو جنرل صاحب کو جوتا مارنے والے وکیل کو بھی کچھ انعام ملنا چاہئے 10`5 لاکھ ہی سہی کہ غیرت مند وکیل نے ہمت و حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے۔ آٹھ سال تک ملک کے سیاہ سفید کا مالک رہنے والا اپنے ہی ملک میں ضمانت کےلئے مارا مارا پھر رہا ہے۔ گویا گیدڑ کو موت آئی ہے تو اس نے پاکستان کا رخ کر لیا ہے ورنہ تو کرڑوں پاکستانی کہہ رہے تھے....
دل کے زخموں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا
گیدڑ بھبھکیاں دینے و الے پرویز مشرف نے اب پاکستان آنے کا از خود فیصلہ کیا ورنہ تو انٹرپول سمیت ان کے کافی حواریوں نے پاکستان حوالگی سے انکار کر دیا تھا۔
اور اب اختصار سے دنیا بھر میں جوتے کھانے والوں کی ادھوری کہانی یہ جوتے مارنے کی کہانی بڑی پرانی ہے پھر بھی ہم چند جوتا گروپ کے واقعات کی تفصیل دے دیتے ہیں آغاز صدر بش پر جوتا پھینکنے سے ہوا جو تاریخ رقم کر گیا اس کے بعد بھارتی وزیر داخلہ چدم برم، چینی وزیراعظم، عراق کے صدر، آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر، ایرانی صدر اور ا پنے ارباب غلام رحیم صاحب سب جوتے کا نشا نہ بنے مگر نہ جانے کیوں دل سے آواز آ رہی ہے کہ جنرل صاحب پرویز مشرف شاید ان سب میں پہلے نمبر پر آ گئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن