بسنت تہوار کے پس منظر میں گستاخی کا ایک واقعہ بھی جڑا ہوا ہے۔ جس کا ذکر ہندو مورخ بی ایس نجار نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ حقیقت رائے سیالکوٹ کے ایک ہندو کھتری کا اکلوتا لڑکا تھا۔ اس نے حضرت محمدﷺ اور حضرت فاطمہؓ کی شان میں (نعوذباللہ) انتہائی گستاخانہ اور نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ اس جرم پر حقیقت رائے کو گرفتار کرکے عدالتی کارروائی کے لیے لاہور بھیجا گیا جہاں اسے سزائے موت کا حکم سنادیا گیا۔ اس واقعے سے پنجاب کے ہندوو¿ں کو شدید دھچکا لگا اور کچھ ہندو افسر سفارش کے لیے اُس وقت کے پنجاب کے گورنر زکریا خان کے پاس گئے‘ لیکن زکریا خان نے کوئی سفارش نہ سنی اور سزائے موت کے حکم پر نظر ثانی کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر ہندوو¿ں میں صف ماتم بچھ گئی۔ ہندوو¿ں نے حقیقت رائے کی ایک مڑھی (یادگار) کوٹ خواجہ سعیدلاہور میں قائم کی جو اب ”بابے دی مڑھی“ کے نام سے مشہور ہے۔ اس مقام پر ایک ہندو رئیس کالو رام نے حقیقت رائے کی یاد میں اس کی موت کے دن کو ایک میلے کی شکل دی اور ہر سال بہار کے موسم میں بسنت میلے کا آغاز کیا۔ پنجاب کا بسنت میلہ اسی حقیقت رائے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ یہ تو تھا بسنت کا مختصر پس منظر۔اب آتے ہیں پاکستان میں بسنت کے منظر کی طرف۔ مشرف نے جب حکومت کی باگ ڈور سنبھالی توجہاں اوربہت سی خرافات کو فروغ ملا وہیں بسنت کے تہوار کو بھی حکومتی سرپرستی کی وجہ سے بہت عروج ملا ۔یہ ایک خونی تہوار ہے جو ہر سال کئی لوگوں کو نگل جاتا تھا۔ خرافات اور قیمتی جانوںکے ضیاع کے سبب لاہور کے ضلعی ناظم میاں عامر محمود نے اس پر پابندی عائد کردی اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب میاںشہباز شریف نے بھی اس پابندی کو برقرار رکھا ۔اس پر لوگوں نے سکھ کا سانس لیا‘مگر 2009ءمیںجب صوبہ پنجاب میں شہبازشریف کی جمہوری حکومت ختم کرکے گورنر راج نافذ کیاگیاتواُس وقت کے گورنر سلمان تاثیر نے ایک بار پھر حکومتی سرپرستی میں بسنت منانے کا اعلان کیا۔گورنر راج کے خاتمے کے بعد شہباز شریف نے ایک بارپھر بسنت پرپابندی لگائی اور پھر سونے پہ سہاگہ کے مصداق لاہور ہائیکورٹ نے بھی بسنت پر پابندی کو برقرار رکھا اور اس کےلئے باقاعدہ قانون سازی بھی کی گئی۔گزشتہ تین سالوں میں کائٹ فلائنگ ایسوسی ایشن نے بسنت کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر میاں شہباز شریف نے بسنت کی اجازت نہ دی۔مگرنگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی نے آتے ہی ایک بار پھر سرکاری سطح پر بسنت منانے اور لوگوں کی جانوں سے کھیلنے کے لیے بسنت کی تقریباً اجازت دے دی ہے۔اخباری اطلاعات کے مطابق 17 اپریل کو لاہور میں بسنت منائی جائے گی۔ بسنت یقینی طور پر ایک خونی تہوار ہے جس کی تازہ مثال ملاحظہ ہوکہ گزشتہ ماہ 10مارچ کو راولپنڈی میں بسنت پر پابندی کے باوجود پتنگ بازی کی گئی جس میں چار بچے جان بحق ہوئے اور 23سے زائد افراد ڈور پھر جانے اور اندھی گولی کا نشانہ بننے سے زخمی ہوئے۔آپ غور کریں کہ اگر پابندی نہ ہوتی تو پھر کیا حال ہوتا۔ جناب سیٹھی صاحب! آپ یادرکھیںکہ اگر آپ نے بسنت کی اجازت دی اور اس میں کسی بھی ماں کی گود اُجڑی تو اس کے ذمے دار آپ ہی ہوں گے اور کل قیامت کے دن آپ کا گریبان اُس ماں کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ آپ سے پوچھے گی کہ کیا میرے بچے کی جان اتنی بے وقعت تھی کہ تم بڑے لوگوں کی تفریح پہ قربان ہوگئی۔آپ سوچیں کہ اُس وقت آپ کے پاس کیا جواب ہوگا۔اس حوالے سے میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں اور بسنت جیسے خونی تہوار پرپابندی کو برقرار رکھیںتاکہ کئی لوگوں کی جانیں ضائع ہونے سے بچ جائیں۔
(ضروری نوٹ:اس کالم میں ہندو کھتری حقیقت رائے کے حوالے سے بی ایس نجار کی جس کتاب کا تذکرہ کیا گیا ہے اگر وہ کتاب کسی صاحب کے پاس موجود ہویا اس کے بارے میں کسی کو علم ہو اور اسی طرح حقیقت رائے کے خلاف عدالتی کارروائی کے متعلقہ ریکارڈ کا کسی صاحب کو علم ہوتو وہ ادارہ نوائے وقت کو اس سے آگاہ کردیں۔ ادارہ اس معاونت پر ان کا بے حد ممنون ہوگا۔
(مدیر نوائے وقت)