مکرمی! علامہ احسان الٰہی ظہیر اس فانی دنیا سے اس طرح رخصت ہوئے کہ دنیا دیکھتی رہ گئی وہ صرف چھیالیس برس کے تھے مگر اس دوران انہوں نے صدیوں کا فاصلہ طے کر لیا تھا۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے ۔ مدینہ ان کا دوسرا گھر تھا۔ انہوں نے امتیازی شان سے امتحانات پاس کئے تھے اور ان کی زندگی مدینے والے ہی کے پیغام کو عام کرنے میں وقف تھی ۔توحید کا ترانہ انہوں نے اس شان سے گایا کہ سننے والے جھوم جھوم اُٹھے۔ راوی پارک لاہور میں ایک جلسے میں خطاب کرنے گئے مگر بم دھماکے نے سارا نقشہ ہی بدل دیا اور خوش نصیب اتنے ٹھہرے کہ جنت البقیع میں ان کے جسدِخاکی نے جگہ پائی ۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر نے شورش کاشمیری کے بعد خطابت کے میدان پر کئی برس تک حکمرانی کی۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید حافظ قرآن بھی تھے اور سنت کے عالم بھی تھے۔ تاریخ کے ماہر بھی، عربی، اردو اور فارسی کے ادب سے شناسا بھی تھے۔ افسوس صد افسوس 25 برس بیت گئے مگر آج تک علامہ شہید کے قاتلوں کو بے نقاب نہیں کیا گیا حکومت پر لازم ہے کہ وہ ان کے قاتلوں کا کھوج لگا کر کیفرِ کردار تک پہنچائے۔ (رانا عصمت اللہ ،گوجرانوالہ)