عوامی مسلم لیگ کے سربراہ، شیخ رشید احمد ، جُگت بازی اور طنزیہ و مزاحیہ گفتگو کو ۔”ہلکی پھلکی موسیقی“۔ کا نام دیتے ہیں۔ ”ہلکی پھلکی موسیقی“۔ کا ماہر شخص، اپنے مخاطب یا مخاطبین کے لئے، تفریح کا باعث بنتا ہے۔ سابق وزیرِ داخلہ رحمن ملک نے اگرچہ ،شیخ صاحب کی باقاعدہ شاگردی اختیار نہیں کی تھی ، لیکن وہ ہمیشہ میڈیا سے، شیخ صاحب کے انداز میں ہی گفتگو کر نے کی کوشش کرتے تھے، خود بھی مُسکراتے اور داد طلب نگاہوں سے ٹی۔ وی کیمرے کی طرف دیکھتے رہتے تھے۔ نگران وزیرِ داخلہ، ملک حبیب خان کی، میڈیا میں رُونمائی کی خبروں سے پتہ چلا کہ، وہ، رحمن ملک صاحب کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے۔ ملک جیب خان نے اپنے۔” ذاتی منشور“۔ کا اعلان کرتے ہُوئے کہا کہ۔ ”میں فرشتہ نہیں ہُوں، مگر تین سال تک فرشتے کی طرح کام کروں گا“۔ جب ملک صاحب کو ٹوکا گیا کہ ۔ ”حضور!۔ آپ کا اقتدار تو، تین سال تک نہیںرہے گا،یہ تین سال کی بات کہاں سے آگئی؟۔ تو، موصوف نے کہا کہ۔” اِسے آپ میری زبان کی لغزش سمجھ لیں!“۔ یہ زبان کی لغزش تھی یا دِل کے اندر چھُپی خواہش ؟۔یہ تو وزیرِ داخلہ کو ہی عِلم ہو گا لیکن نگران وزیرِاعظم جسٹس (ر) مِیر ہزار خان کھوسو تو برملا کہہ چکے ہیں کہ۔” اگر انتخابات میں ایک دِن کی بھی تاخیر ہوئی تو مَیں گھر چلا جاﺅں گا “۔ملک حبیب خان نے کہا کہ۔ ”میرے پاس۔” الہ دین کا چراغ “۔نہیں ہے کہ، تمام مسائل ایک ہی جست میں حل کر لئے جائیں، لیکن امن و امان کا مسئلہ حل کرنا میری اوّلین ترجیح ہو گی!“۔
مَلَک(جمع مَلائک) فرشتے کو کہتے ہیں اور مَلِک(جمع ملُوک) بادشاہ کو۔ رحمن مَلِک(اعوان) کی طرح۔مَلِک حبیب خان بھی ،اعوان ہیں ، لیکن وہ فرشتے کی طرح ۔”مَلَک“۔ بن کر کام کرنا چاہتے ہیں۔آخر کیوں؟۔ وزیرِ داخلہ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ، وہ کِس فرشتے کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں؟۔اِس لئے کہ، فرشتے تو بہت سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے چارمُقرّب فرشتوں میں ۔1۔حضرت جبرائیل۔ جو انبیاءاور رسولوں تک اللہ تعالیٰ کے پیغامات لاتے تھے۔ 2۔حضرت عزرائیل۔ جو انسانوں کی ارواح قبض کرتے ہیں اور جنہیں۔ ”مَلک الموت“ ۔ بھی کہا جاتا ہے۔3۔حضرت اِسرافیل۔ جو قیامت کے دِن صُور پھونکیں گے تو تمام ذی روح مر جائیں گے اور ۔4۔حضرت میکائیل۔ جن کی ذمہ داری، لوگوں کو رزق پہنچانا اور بارش برسانا ہے۔ دو اور فرشتے ہیں، جنہیں کراماً کاتبین کہا جاتا ہے اور وہ ہر انسان کے دائیں اور بائیں کندھے پر بیٹھے ہیں اور اُس کے نیک اور بد اعمال کو قلم بند یا فِلم بند کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ دو اور فرشتے بھی ہیں۔ مُنکر اور نکیر جو بادشاہوں، فوجی آمروں اور جمہوری حکمرانوں سے لے کر، نچلے طبقے کے لوگوںتک،حتیٰ کہ 8000 روپے ماہوارتنخواہ پانے والے مزدوروں تک،کی پکّی اور کچّی قبروں میں،بغیر اجازت داخل ہو کر، اُن سے اُن کی ساری زندگی کا حساب طلب کریں گے۔
ملک حبیب خان کے لئے، حضرت جبرائیل،حضرت اسرافیل اورحضرت عزرائیل کا کردار ادا کرنا تو ممکن نہیں۔ کراماً کا تبین کا، کام تو وہ انسپکٹر جنرل پولیس ۔ اور ایف۔ آئی۔ اے ، آئی ۔بی اور آئی۔ ایس۔ آئی۔ میں اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دے کر ریٹائر ہو چکے ہیں۔ البتہ ایک حضرت میکائیل۔ کا کردار ہے، جو ملک حبیب خان انجام دے سکتے تھے، بشر طیکہ وہ صدر آصف علی زرداری ۔ یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف کی جگہ ہوتے۔حضرت میکائیل فرشتے کے ذمے ،انسانوں کو روزی پہنچانا ہے ، لیکن وہ حضرت عمر بن خطابؓ کی طرح گندم یا آٹے کی بوری کمر پر لاد کر گھر گھر تو نہیں پہنچاسکتے ۔ یوں بھی روزی پہنچانا تو۔(لوگوں کو روزگار فراہم کر کے)۔ حکمرانوں کا کام ہوتا ہے اور خاص طور پر اُن حکمرانوں کا ،جنہوں نے عوام سے یہ وعدہ کیا تھا اور اُن کی تیسری نسل آگئی ، لیکن وہ وعدہ پُورا نہیںہو سکا۔
ملک حبیب خان، حضرت میکائیل کا کردار ادا کر کے، بارش بھی نہیں برسا سکتے۔ فرض کیا وہ برسا بھی دیں تو ہمارے مُلک میں تو بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کا انتظام ہی نہیں۔ 11مئی 2013ءتک۔ (یعنی ایک ماہ5دِن میں )۔تو کالا ڈیم بھی نہیں بنایا جا سکتااور ملک حبیب خان کے پاس (بقول اُن کے)۔ الہٰ دین کا چراغ بھی تو نہیں ہے، پھر وہ بارش کیسے برسائیں گے؟۔ ملک صاحب نے میڈیا کو یہ بھی بتایا کہ۔ ” میں۔ "Cheater" ۔(دھوکے باز نہیں ہوں)۔ قبلہءمحترم!۔ ابھی تو آپ کو آئے، جمعہ جمعہ آٹھ دِن ہُوئے ہیں اور میڈیا نے تو آپ پر یہ الزام بھی نہیں لگایا اور نہ ہی عوام نے۔ البتہ عوام کو پانچ سال تک۔ "Cheat" ۔ کرنے والوں کا تو عدالتیں بھی کچھ نہیں بگاڑ سکیں،اِس لئے کہ عدالتیں ثبوت مانگتی ہیں اور تحقیقی اور تفتیشی ادارے ثبوت پیش ہی نہیں کرتے ، غائب کر دیتے ہیں۔ پاک ، مقّدس اور بھولے بھالے شخص کو۔ ”فرشتہ“۔ کہا جاتا ہے، لیکن داغ دہلوی کو فرشتہ کہلانا پسند نہیں تھا۔ کہتے ہیں۔۔
”لاگ ہویا لگاﺅ، کچھ بھی نہ ہو ، تو کچھ نہیں
بن کے فرشتہ، آدمی، بزمِ جہاںمیں، آئے کیوں؟
انسان تو اشرف المخلوقات ہے، جِسے (اللہ تعالیٰ کے حُکم سے) فرشتوں نے سجدہ کیا تھا۔ پھر کسی انسان کی فرشتہ بننے کی خواہش کیوں؟۔ کیوں نہ وہ مثالی انسان کا کردار ادا کر کے، فرشتوں کو بھی شرمندہ کر دے؟۔ فرشتوں میں تو بد اعمالی کا مادہ ہی نہیں ہوتا۔ یہ اختیار انسان کے پاس ہے کہ وہ بد اعمالی کا مُرتکب ہو یا نہ ہو ۔ اِسی لئے تو مثالی انسان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ۔۔۔
”فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا“
مَلَک اُلموت۔ (موت کے فرشتے) نے بھی، یقینا اپناکوئی نظام قائم کر رکھا ہوگا، دُنیا کے مختلف مقامات پر ،اُس نے اپنے نائبین مقرر کر رکھے ہوں گے۔پاکستان میں بھی۔گذشتہ کئی سالوں سے، وطنِ عزیز میں ، چاروں طرف مُلک الموت کے نائبین ہی، اپنے باس کے حُکم کے مطابق ، تھوک کے حساب سے اور برق رفتاری سے انسانوںکی جان لے رہے ہیں، یہ محض۔ ”امن و امان کا مسئلہ“۔ نہیں ہے، جِس کے بارے میں ،یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ۔ ”امن و امان کا مسئلہ تو صوبائی حکومتوں کا کام ہے“۔ دہشت گردی۔ جِس جگہ ہو، وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں ، کا مشترکہ مسئلہ ہے ۔ غور اِس بات پر کیا جانا چاہیئے کہ۔ جب تک۔ ”الہٰ دین کا چراغ“۔ نہ مِلے تو اِ س مسئلے سے کیسے نِمٹا جائے؟۔ اردو میں (کنایتہ) نہایت رُعب داب کے انسان کو۔ ”فرشتے خان“۔ کہا جاتا ہے۔ اگر ملک حبیب خان فی الحقیقت(67سال کی عمر میں بھی ) فرشتے، کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو اُنہیں دہشت گردوں کے لئے ۔ ”فرشتے خان “ ۔ بن کر دکھانا ہوگا۔ برٹش میوزیم میں پرانے دور کا ایک انگریزی سکّہ محفوظ ہے۔ جِس پر حضرت میکائیل کی ایک ایسی شبیہہ بنی ہے، جِس میں وہ ایک ہتھیار سے ایک خوفناک اژدھے کو چھید رہے ہیں۔ ملک حبیب خان صاحب! اگر آپ دہشت گردی کے اژدھے کو، کسی بھی ہتھیار سے، چھید کر ہلاک کرنے میں کامیاب ہو گئے تو، آپ پاکستان کی قومی تاریخ میں۔” فرشتے خان “۔ وزیرِ داخلہ کہلائیں گے ۔
”فرشتے خان“۔ وزیرِ داخلہ!
Apr 06, 2013