تمام عالم اسلام کی روح جس پاک مٹی میں بسی ہے وہ عظیم مٹی اس شہر منور کی ہے جہاں مولائے کل، دانائے سبل و ختم الرسلؐ نے اپنی حیات مبارکہ کا ایک طویل حصہ بسر کیا۔ ہاں… میری آنکھوں کے سامنے اس وقت مدینہ طیبہ کے وہ مبارک نظارے مجھے مسرور کئے ہوئے ہیں اور سفر شہر مدینہ کی یادوں کے دیپک روشن کئے ہوئے ہیں جو ایک برس قبل فضل الٰہی سے میں عمرہ کے لئے بیت اللہ حرم پاک حاضر ہوئی اور آنکھوں نے دیکھے میں مدینے میں سوہنے نبیؐ کے پائوں کے نقش چومتی روضہ رسولؐ پر نماز عشق ادا کرتی تھی۔ بس یہ بیش بہا قیمتی چند دن مجھ غریب کا سرمایہ حیات ہیں اور اب کالی کملیؐ والے کی منتظر نگاہ ہوں کہ پھر وہی مدینے کی خاک نشینی کے دن میری زندگی میں کبھی دوبارہ لوٹ آئیں۔ ہم رشک کر رہے ہیں جناب ڈاکٹر خالد عباس الاسدی کے مقدر یہ کہ وہ گزشتہ تیس برس سے مدینے کے خاک نشیں ہیں اور حبیب مصطفیٰؐ کے قدموں میں بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بہت بھلے انسان ہیں۔ عشق نبیؐ ان کا اعجاز ہے۔ ’’مدینہ منورہ‘‘ کے ٹائٹل پر ایک خوبصورت قطعات پر مبنی کتاب حوالہ قلم کر دی۔ وہ دیار رسولؐ کی محبت میں لکھتے ہیں…؎
دل و نظر میں سمانے لگا نبیؐ کا نگر
بجھے چراغ جلانے لگا نبیؐ کا نگر
یہیں سے گزرا تھا آقاؐ کا کاروان عظیم
مسافروں کا ٹھکانا ہوا نبیؐ کا نگر
پھر آپ شہر منور کو اسلامی ثقافت کا ترجمان گردانتے ہوئے یوں گویا ہوتے ہیں…؎
شہر نبیؐ ثقافت اسلام کا امیں
روشن اسی چراغ سے تہذیب عالمیں
سیکھے یہیں سے آدم خاکی نے رموز عشق
تاریخ اسی کے پہلو میں ہوتی ہے سجدہ جبیں
ایک عاشق کی نظر سے شہر نبیؐ کا دیدار کرتے ہوئے فرماتے ہیں…؎
قرآن کی آیات میں لپٹا نظر آیا
ہر ذرہ مدینے میں صحیفہ نظر آیا
شاداب نظر آیا فقط شہر محمدؐ
اور باقی جہاں آنکھ کا صحرا نظر آیا
’’مدینہ منورہ‘‘ ڈاکٹر خالد عباس الاسدی کی نعتیہ کتاب ایمان کو تازگی دینے والی ہے۔ اس میں جو قطعات لکھے گئے ہیں ان قطعات کے ساتھ خوبصورت تصویریں ثنا خواں رسولؐ کی ذات اقدسؐ سے عقیدت کی عکاس ہیں۔ ڈاکٹر خالد نے یہ کتاب لکھ کر مسلمان قوم پر ایک احسان یہ کیا ہے کہ اس کتاب کے توسط سے اسلام کے خلاف کفر کے پروپیگنڈے کا توڑ ہوا۔ آج کے دور میں صیہونی طاقتوں نے سلامتی و امن کے عظیم مذہب کو جور و جبر اور جنگ و جدل کا مذہب قرار دینے کی ہرممکن کوشش کر رکھی ہے۔ اسلام تلوار کے زور پر پھیلانے کی بدگمانی کو عام کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔ اس تماشاء کفر کا جواب ڈاکٹر خالد کچھ اس طرح دے رہے ہیں…؎
تلوار سے اسلام حکومت نہیں کرتا
انسان کی حرمت سے بغاوت نہیں کرتا
انسانیت ہے دیں مکمل کی وہ اساس
جس سے کہ اس جہاں کی روشن جبیں ہے
اور شہر نبیؐ کو امن کا شہر قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں
یہ جنگوں کی بجائے امن عالم کا صحیفہ ہے
یہ تخریب و تشدد کی مذمت کا جریدہ ہے
کہاں اسلام کے دستور میں دہشت کی گنجائش
یہ انسانی محبت کی ثقافت کا مدینہ ہے
بلاشبہ ازل سے ہی عالم انسانی میں شورشوں کا زور رہا ہے، فتنے اٹھتے رہے ہیں، سازشیں چلتی رہی ہیں، ظلم و بربریت، دہشت و تشدد کا بازار گرم رہتا ہے… یعنی نیکی و بدی کی کشمکش رہے گی مگر اس تمام سچوایشن میں ایسے لوگوں کا کیا کہنا جو دین اسلام کے خلاف سر اٹھانے والے، فتنہ پروروں کا مزاج درست کرنے والے، ڈٹ جانے والے ہیں۔ آج کے پرفتن دور میں ہمیں واقعی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ اسلام کو متشدد قرار دینے والوں کے عزائم آشکار کئے جائیں بلاوجہ اسلام سے خائف رہنے والوں کی کدورتوں کا احتساب کیا جائے اور دین اسلام کا اصل یعنی امن و سلامتی کا مذہب ہونا پریچ کیا جائے۔ اس پیرائے میں ڈاکٹر خالد عباس الاسدی کی کاوش قابل قدر ہے۔ امجد اسلام امجد ڈاکٹر خالد کی مختصر قطعات پر مبنی اسلامی ثقافت کا دارالخلافہ ’’مدینہ منورہ‘‘ کے حوالے سے فرماتے ہیں۔
’’اسلامی معاشرے کی ابتدائی پرورش و پرداخت اسی شہر اقدس میں ہوئی۔ اسلامی ثقافت کا چہرہ اسی ایمان پرور پاکیزہ ماحول کی کرنوں سے باوضو ہوا۔ یہ تلوار نہیں کردار کی ثقافت ہے۔ یہ انتقام نہیں عفو و درگزر کا مقام ہے۔ پتھروں کی بارش میں بھی شہر نبیؐ پھولوں بھری دعائوں کا اہتمام کرتا ہے۔ یہ محبتوں کی ایسی گلنار زمیں ہے جس کے سامنے نفرتوں کے خار ٹھہر نہیں سکتے‘‘۔
ڈاکٹر خالد آپ اسلام کیخلاف کفر کے پروپیگنڈے کا جواب دیتے رہئے۔ گل و بلبل کی داستانوں سے نکال کر اصلاحی شاعری کو رواج دیتے رہئے، ادب کو مذہبی پیرائے میں ڈھالتے رہئے۔ ڈاکٹر صاحب قلمی جہاد جاری رکھئے۔
ڈاکٹر خالد عباس کا قلمی جہاد
Apr 06, 2014