سدرہ کوثری
خواتین ملک کی کل آبادی کا تقریباً نصف سے زائد حصہ ہیں اور انہیں بھی روزمرہ زندگی میں مسائل درپیش ہیں جنہیں حل کرنا ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سوچیئے کہ ملک کی اس نصف آبادی میں سے کتنے ہزار خواتین اور بچیاں روز سکول، کالج یا پھر نوکری کی غرض سے گھروں سے نکلتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہیں ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے اور وہ ہے سفری سہولیات کا۔ظاہر ہے جب آپ گھر سے باہر نکلیں گی تو کسی نا کسی سواری کے ذریعے ہی اپنی مطلوبہ جگہ پہنچیں گی۔ کچھ عرصہ قبل خواتین کیلئے گلابی بسیں تو چلائی گئیں جس میں صرف خواتین ہی سفر کر سکتی تھیں لیکن پھر وہ بس سروس کامیاب نہ ہو سکی اور لاہور شہر کی چند ایک سڑکوں پر کبھی کبھار کوئی گلابی رنگ کی بس نظر آ جاتی ہے۔موجودہ حکومت نے ایک سال سے کم عرصے میں لاہور شہر کے باسیوں کیلئے ایک جدید اور بین الاقوامی طرز پر مبنی بس سروس کا آغازکیا جس کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا وہیں یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ اس میٹرو بس کی بدولت روزانہ کئی ہزار افراد مستفید بھی ہو رہے ہیں۔آئے روز جہاں مہنگائی کی بدولت لوگوں کا جینا دوبھر ہو گیا ہے وہیں صرف بیس روپے کے کرایے میں وہ شہر بھر کا سفر کر سکتے ہیں۔ میٹروبس پر تنقید کرنے والے شاید یہ نہیں دیکھ پاتے کہ عام آدمی کی زندگی میں اس میٹرو بس نے کتنی آسانی پیدا کر دی ہے۔ جہاں اس بس کی بدولت لوگوں اور خصوصاً خواتین کو سفری سہولت میسر ہوئی ہے وہیں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ خواتین کی بڑی تعداد اس بس میں روزانہ سفر کرتی ہے اور اس میں طالبات کی بڑی تعداد شامل ہے۔ اگر ہم بس کے روٹ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس کے روٹ میں لاہور کے سرکاری تعلیمی ادارے نزدیک ہیں۔ جس میں گورنمنٹ کالج ،پنجاب یونیورسٹی، این سی اے، ایم اے او کالج، خواتین کالج سمیت حضرت داتا گنج بخش کے مزار کا روٹ بھی شامل ہے جہاں روزانہ کئی سائل حاضری دیتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ جاننا لازم ہے کہ میٹرو بس جو کہ عام عوام کی سواری ہے اس کی اہمیت کسی طور کم نہیںہے وہیں رش کے جگہ کی کمی کا بھی سامنا ہے ۔اب جبکہ ایک ایسی بس سروس موجود ہے جس کاکرایہ کم ہے، بس میں سوار ہونے کیلئے صاف ستھرا اور سایہ دار پلیٹ فارم موجود ہے تو ایسے کیسے ممکن ہے کہ ان روٹس پر قائم دفاتر، سکول اور کالجوں میں آنے والے اس سے مستفید نہ ہو۔ اگر آپ کو کبھی میٹرو بس میں بیٹھنے کااتفاق ہوا ہو تو معلوم ہوگا کہ خواتین کیلئے الگ حصہ ہے لیکن وہ بھی رش کے باعث کھچا کھچ بھرا ہوتا۔ خواتین اور بچیاں ایک کے اوپر ایک چڑھی ہوتی اور یہ حال ہوتا کہ سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا ۔ یہ تو اچھی بات ہے کہ بس کیلئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا لیکن صبح اور چھٹی کے اوقات میں ایسا جم غفیر امڈ کر آتا ہے کہ بس میں بھی جگہ کم پڑ جاتی ہے ۔موسم گرما کی آمد ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ جہاں اے سی بس ایک نعمت ہوگی وہیں اس میں لگا رش کئی لوگوں کیلئے باعث تکلیف بھی بنتا ہے۔ خواتین کیلئے چند سیٹیں مختص تو ہیں لیکن اس سے چار گنا زائد خواتین اور بچیاں اس ڈبے میں موجود ہوتی ہیں۔ رش کے باعث گھٹن بھی بڑھ جاتی ہے ، خواتین دروازے میں کھڑی ہوتی ہیں جس سے چوٹ لگنے یا پھر ایکسیڈنٹ ہونے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ ہمیں اس بات پر کوئی شک نہیں کہ حکومت پنجاب کی شروع کردہ یہ سروس داد کی حقدار ہے لیکن اگر خواتین سواریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے مطابق مزید اقدامات کیے جائیں تو بہتر ہوگا۔جہاں ٹکٹ کی بجائے ایک کارڈ بنوا لینے سے ٹوکن کی قطار میں بھی کھڑے ہونے کے جھنجھٹ سے جان چھٹ جاتی ہے وہیں اگر بس میں خواتین کی جگہ بڑھا دی جائے یا چند اور بسوں کا انتظام کر دیا جائے تو یہ خواتین اور بچیوں کیلئے آسانی کا باعث بنے گا اور وہ زیادہ سہولت سے سفر کر سکیں گی۔
میٹرو بس میں سفر کرنے والی خواتین کی تعدادبڑھنے لگی
Apr 06, 2015