بھارت: گائے کا ذبیحہ روکنے کیلئے تصاویر جمع کرانے کا حکم پولیس کیلئے سردرد بن گیا

نئی دہلی (نیٹ نیوز) یہ ایک انوکھا پہلو ہے کہ بھارت میں پولیس مجرموں کے بجائے گائیوں کے چہرے کی تصاویر کا مطالبہ کر رہی ہے۔ تاہم گنجان آباد ریاست مہاراشٹر کے شہر مالیگاؤں میں پولیس گائے کے گوشت پر پابندی کے نفاذ کے لئے یہی کر رہی ہے۔ ایک پولیس اہلکار نے ایک بھارتی اخبار کو بتایا ’ہم یہ تصاویر صرف تصدیق کے مقصد کے لئے جمع کر رہے ہیں۔ اگر کوئی الزام عائد کرتا ہے کہ کوئی غیرقانونی سرگرمی ہو رہی ہے اور اس کے مالک کے پاس اس کی تصویر موجود ہو تو سچائی ثابت کرنے میں آسانی ہوگی۔‘ مجھے یقین نہیں کہ یہ ٹھیک ہے۔ آپ گوشت کے ایک ٹکڑے کو گائے کی تصویر کے ساتھ کیسے ملا سکتے ہیں؟ تاہم، حقیقی طور پر، اس قانون کا نفاذ ایک مشکل کام ہے۔ آپ کو مجرم قصائیوں کو گائے کی لاشوں کے ساتھ پکڑنا ہوگا، حقیقنی معنوں میں ’رنگے ہاتھوں‘ تاکہ جرم ثابت کیا جا سکے۔ کیونکہ ڈی اے ٹیسٹ کے بغیر گائے اور بھینس کے گوشت میں تفریق کرنا خاصا مشکل ہے۔ بی بی سی کے مطابق بدقسمتی سے بھارت میں بھینسوں کو خدا کے اتنے قریب نہیں سمجھا جاتا کہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ بھینس کے گوشت پر پابندی کل 29 ریاستوں میں سے صرف ایک پر عائد ہے۔ یہاں معاشی معاملہ بھی ہے۔ گائے کا گوشت مرغی اور مچھلی کے مقابلے میں سستا ہے اور بہت سارے مسلمانوں، قبائلیوں اور دلتوں کے لیے اہم غذا بھی ہے۔ یہ ایک بہت پھیلی ہوئی صنعت ہے اور اس کے ساتھ لاکھوں لوگوں کا روزگار منسلک ہے۔ بھارت میں گائے کے گوشت پر پابندی کا مسئلہ ایک نازک معاملے یعنی مذہب کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ بھارت کی ایک ارب دو کروڑ پر مشتمل 80 فیصد ہندو آبادی گائے کو مقدس مانتی ہے، جبکہ 18 کروڑ مسلمانوں پر مشتمل ایک بڑی اقلیت کے نزدیک یہ ایک مرغوب غذا ہے۔ بہت سارے مسلمان گائے کے گوشت پر پابندی سیکولرازم کا قتل سمجھتے ہیں جس کی بنیاد پر پر آزاد بھارت کا وجود عمل میں آیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کا سیکولرازم تقسیم کے وقت ہجرت کرنے والے مسلمانوں اور ہندوؤں کے لاکھوں کی تعداد میں ہونے والے قتل عام کا ردعمل تھا۔ ملک کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے توجیح پیش کی کہ بھارت میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر رہ جانے والے کروڑوں مسلمانوں کے ساتھ مساویانہ رویہ رکھنا ان کے لیے معقول مراعات ضروری ہیں۔ لیکن بھارت میں اب ہندوقوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے، جو بھارت کو ایک ہندو قوم کے طور پر دیکھتی ہے۔ بی جے پی کے سربراہ اور وزیراعظم نریندر مودی نے بارہا مرتبہ سیکولرازم کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کیا ہے تاہم اس کے باوجود اس کی جماعت نے مہاراشٹر میں گائے کے گوشت پر پابندی کی حمایت کی۔ دریں اثناء بی بی سی کی ایک اور رپورٹ کے مطابق بھارت صرف مسلمان ہی ہیں جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔ یہ بالکل ہی بے بنیاد خیال ہے کیونکہ اس کی کوئی تاریخی بنیاد نہیں۔ قدیم ہندوستان کے ویدک ادب میں ایسی کئی شواہد ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں بھی گائے کے گوشت کا استعمال کیا جاتا تھا۔ جب یگیہ (ایک مذہبی تقریب) ہوتی تھی تب بھی گائے کو قربان کیا جاتا تھا۔ اس وقت یہ بھی رواج تھا کہ اگر مہمان آ جائے یا کوئی خاص شخص آ جائے تو اس کے استقبال میں گائے کوذبحہ کیا جاتا تھا۔ شادی بیاہ کے رسم میں یا پھر گھر باس (نئے گھر میں آباد ہونے کی رسم) کے وقت بھی گائے کا گوشت کھلانے کا رواج عام ہوا کرتا تھا۔ یہ عہد گپت (تقریباً 550- 320 عیسوی) سے پہلے کی بات ہے۔ سارا تنازع 19 ویں صدی میں شروع ہوا جب آریہ سماج کی تشکیل ہوئی اور سوامی دیانند سرسوتی نے ’گورشا‘ کے لیے مہم چلائی۔ اور اس کے بعد ہی یہ امتیاز سامنے آیا کہ جو 'بیف' فروخت کرتا اور کھاتا ہے وہ مسلمان ہے۔ اسی کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی کا بھی آغاز ہوا۔ اس سے پہلے فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق ہندو کلچر میں ویسے گوونش کی ایک پوجا ہوتی ہے جس کا نام ’گوپاشٹم‘ ہے۔ اس کے علاوہ گائے کے لیے علیحدہ کوئی مندر نہیں ہوتے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ملک کی اکثریت کے جذبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بیف پر پابندی لگانا چاہیے تو آپ انھی میں سے ایک طبقہ کے جذبات کو ٹھیس بھی پہنچا رہے ہیں۔ وہیں ایک دوسرے طبقے کے کھانے پینے پر آپ قدغن بھی لگا رہے ہیں، ملک میں دلت بیف کھاتے ہیں اور کھلے عام کھاتے ہیں، قبائلی کھاتے ہیں۔ جنوبی بھارتی ریاست کیرالہ میں برہمنوں کو چھوڑ کر باقی سب کھاتے ہیں۔ تامل ناڈو میں بھی ایک بڑا طبقہ ہے جو بیف کھاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت صرف توہمات پر چل رہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن