پنجاب یونیورسٹی میں کتاب میلے کے آخری لمحے تھے۔ آٹھ بجے کے بعد بھی کتابیں بکتی رہیں۔ اس سال تقریباً دو لاکھ کتابیں فروخت ہوئیں۔ دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کتاب دوست پروفیسروں اور مہمانوں کے درمیان میلے کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے۔ ان کی روحانیت اور گہری دانش والی اہلیہ پروفیسر ڈاکٹر شازیہ قریشی بھی ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔ یہ تجویز سامنے سے آئی کہ کتاب میلہ سال میں دو بار لگنا چاہئے۔ بڑی رونق لگتی ہے۔ اتنی بے تکلفی سے یونیورسٹی کے سربراہ کا مکالمہ دوستوں کے ساتھ دیکھ کر میں حیران ہوا۔ یہی کتاب دوستی کا نیا زمانہ ہے۔ جبکہ اب سچی دوستی کا زمانہ نہیں رہا۔
آخری دن امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی آئے۔ ان کے ساتھ امیر العظیم بھی تھے۔ نجانے دونوں امیروں میں کیا فرق ہے۔ امیرالعظیم پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے۔ سراج الحق بھی یہاں ناظم جمعیت تھے۔ خوشگوار حیرت ہوئی کہ کتاب میلے کی ایک منتظم پروفیسر ڈاکٹر ممتاز اختر کے شاگرد تھے۔ انہوں نے پروفیسر ڈاکٹر ممتاز کی قیادت میں کتاب میلہ دیکھا اور سر جھکائے ہوئے رہے۔ وہ ذاتی طور پر اچھے رویے کے آدمی ہیں۔ جیسی وہ باتیں کرتے ہیں انہیں غریب جماعت اسلامی کہنا چاہئے۔ پروفیسر ممتاز کہتی ہیں کہ وہ طالب علم کے طور پر بھی اپنے ساتھیوں جیسے نہیں تھے۔ مودب اور مہذب نوجوان تھے۔ وہ ڈاکٹر مجاہد کامران سے ملنے ان کے دفتر میں آئے۔ محترم مقصود بٹ بھی ساتھ تھے۔ ان کا یہ تاثر بھی اچھا لگا۔ ان کے ساتھ جمعیت کے ناظم سے وائس چانسلر نے پوچھ لیا کہ کل میں کتاب میلے میں گیا۔ کئی صحافی دوست اور ڈاکٹر اجمل نیازی بھی ساتھ تھے تو تم نے نعرے بازی اور ہلڑ بازی کیوں کی۔ ڈاکٹر مجاہد کامران نے ان طالب علموں سے صرف اتنا کہا کہ تم عام طالب علم کے طور پر یونیورسٹی میں نہیں رہ سکتے۔ طالب علموں نے کہا کہ آپ حکم کریں۔ وی سی نے کہا میرا یہی حکم ہے۔ ہر وقت غصے کا اظہار؟ تم خود بھی خوش رہو اور دوستوں اور دوسروں کو بھی خوش رکھو۔
قاضی حسین احمد سے بڑی دوستی تھی ان کی کشادہ دلی اور انداز قیادت بہت محبوب تھا۔ لیاقت بلوچ، حافظ محمد ادریس امیرالعظیم فرید پراچہ میرے دوستوں میں سے ہیں۔ یہ کتاب میلہ جمعیت نے آغاز کیا تھا۔ تب بھی نعرے بازی سننے میں آتی تھی مگر اب یہ پوری یونیورسٹی کا کتاب میلہ ہے۔ یہ سب لوگوں کا میلہ ہے۔ پہلے دن حفیظ اللہ نیازی سجاد میر اور سلمان غنی آئے۔ سلمان غنی نے کہا کہ شہباز شریف کو کیوں نہیں بلایا گیا۔ تو کیا شہباز شریف کتابیں پڑھتے ہیں ان کے پاس پوری لائبریری ہے۔ لائبریری پہلے صرف بھٹو صاحب کے پاس تھی۔ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان بھی مطالعے کے بہت شوقین ہیں۔ پچھلے دنوں وہ لاہور آئے تو ہم نے اکٹھے کھانا کھایا۔ وہ کتابوں کی باتیں بھی کرتے رہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی کا بھی ذکر ہوا۔ لائبریری چودھری نثارکے پاس بھی ہے۔ جرات اظہار اور جرات دوستی کتاب دوستی کے بغیر نہیں آتی۔ میری گذارش ہے کہ آئندہ کتاب میلے میں شہباز شریف اور چودھری نثار کو بلایا جائے۔
مجھے کتاب میلے میں ڈاکٹر پروفیسر ساجد رشید اور ڈاکٹر شفیق ہر وقت نظر آئے۔ ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد پرنسپل اورینٹل کالج نے بھی اس سلسلے میں بہت دلچسپی لی۔ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ میرے میانوالوی کے بچے بچیاں اب یونیورسٹی میں نمایاں ہیں۔ میں نے ان سے میانوالوی زبان میں بات کی تو ڈاکٹر مجاہد کامران نے کہا کہ اب تم بھی اپنی بولی میں بات کرو۔ برادرم عطاالرحمن نجم ولی خان افضال ریحان میاں حبیب اللہ میری گل اور مبشر لقمان، وصی شاہ اور توفیق بٹ بھی آئے۔ کتاب میلے سے پہلے یونیورسٹی کے بہت دل والے پی آر او خرم شہزاد، توفیق بٹ کو وی سی کے دفتر میں لے گئے تھے۔ وہ کتاب میلے میں بھی گئے۔ ذوالفقار چیمہ بھی آئے ان کی کتاب دوٹوک باتیں بہت فروخت ہوئی ہے۔ کتابوں کی نمائش تو دوسرے تعلیمی اداروں میں بھی ہوتی رہتی ہے۔ مگر اتنی رونق خوبصورتی اور رنگا رنگی کم کم دیکھنے میں آتی ہے۔ میں نے آٹو گراف لینے والوں کے لئے شرط لگا دی کہ وہ کتاب میلے سے خریدی گئی کتاب پر کچھ لکھوائیں میں نے یہ جملے بار بار لکھے۔ ”کتابیں گھروں کی طرح ہوتی ہیں ان میں رہنا چاہئے۔“ مجھے کتابیں اور کتابی چہرے اچھے لگتے ہیں جو چہرہ کتاب پڑھتا ہے، کتابی ہو جاتا ہے۔“ مجھے کتابوں کے بہت تحفے ملے۔ کچھ یونیورسٹی کی طرف سے کچھ سٹال والے بھی مہربان ہوتے تھے۔ ایک ہفت روزہ رسالہ ”ہم شہری“ بھی سب مہمانوں کو دیا گیا۔ اس کے ایڈیٹر کالم نگار ادیب سجاد انور ہیں۔ ہفت روزہ کا رواج نہیں رہا مگر یہ ایک مختلف رسالہ ہے۔
اس دوران یونیورسٹی اورئینٹل کالج کی طرف سے ایک شاندار مشاعرے کا اہتمام پروفیسر ڈاکٹر ضیاالحسن نے کیا ہوا تھا۔ ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد کی سرپرستی بھی شامل حال تھی۔ مجھے اس محفل مشاعرہ کا صدر بنا دیا گیا۔ سٹیج پر میرے ساتھ ڈاکٹر مجاہد کامران ڈاکٹر شازیہ قریشی ڈاکٹر اکرم شاہ اور ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد۔ میں بھی ڈاکٹر ہوں۔ ضیاالحسن بھی ڈاکٹر ہیں۔ مگر یہاں کوئی مریض نہ تھا۔ اس سے پہلے ڈاکٹر زاہد نے کہا کہ محفل میں کچھ دیر پہلے چار شاعر موجود تھے مگر سامع کوئی نہ تھا۔ ڈاکٹر ضیا نے بہت خوبصورت اور شگفتہ انداز میں کمپیئرنگ کی۔ وہ خود بھی بہت اچھے شاعر ہیں اور اورینٹل کالج میں پروفیسر کے طور پر بھی اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ میرے لئے حیرت یہ تھی کہ اس بہت باوقار مختصر محفل مشاعرہ میں دوستوں نے بہت اچھے اشعار سنائے اور لوگوں نے بہت ذوق و شوق سے مشاعرہ سنا۔ ایک مطمئن چہرے والی طالبہ نے اچھے اشعار سننے کا حق ادا کر دیا۔ مجھے اس بچی کا نام معلوم نہیں ہے مگر میں محفل کے بعد اس کے پاس گیا اور اس کو سلام کیا۔ یونیورسٹی کے لوگوں نے اچھے اشعار کا ڈھیر لگا دیا۔ شعبہ فارسی کے پروفیسر نظامی صاحب اور پروفیسر اسرار چشتی نے بہت خوبصورت اشعار سنائے۔ اسرار چشتی نے ترنم اور تخیل کے امتزاج سے سماں باندھ دیا۔ خوشی ہے کہ یونیورسٹی میں آرٹ کا شعبہ بھی قائم ہوا ہے اور موسیقی باقاعدہ پڑھائی جاتی ہے۔ اسرار چشتی اپنے والد بے پناہ اور بے نیاز نعت خواں اعظم چشتی کی سچی نشانی کی طرح ہے۔ پروفیسر شبیر سرور ڈاکٹر شفیق حتیٰ کہ ڈاکٹر مجاہد کامران نے بھی اپنے ذاتی اشعار سنائے۔ سٹیج پر بیٹھنے کا تقاضا یہ بھی تھا کہ ڈاکٹر شازیہ بھی کچھ سناتیں۔ کوئی گفتگو ہی کرتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ڈاکٹر مجاہد کامران کو دوسروں کے اشعار بہت یاد ہیں۔ وہ اتنے ولولہ انگیز انداز میں دوسروں کے اشعار پڑھتے ہیں جیسے یہ ان کے اپنے اشعار ہوں۔ انہیں مجید امجد بہت یاد ہے۔ ان کی سرپرستی میں مجید امجد کی ایک کتاب شائع کی گئی ہے جس کے مرتبین میں ڈاکٹر محمد کامران ڈاکٹر ضیاالحسن، ڈاکٹر ناصر عباس نیر شامل ہیں۔ یہ کتاب مختلف لوگوں کی مجید امجد کے لئے یادگار تحریروں پر مشتمل ہے۔ اس میں ڈاکٹر مجاہد کامران کا خصوصی پیغام بھی ہے۔
”مجید امجد 1914ءمیں پیدا ہوئے۔ اس مناسبت سے 2014ءکو مجید امجد صدی کے طور پر منایا گیا۔ دنیا بھر میں عشاقان مجید امجد نے ان کے فن اور فکر کو خراج تحسین پیش کیا۔ مجھے مجید امجد کی شاعری سے قلبی لگاﺅ ہے۔ ان کی نظمیں مجھ پر زندگی کی گہری حقیقتیں منکشف کرتی ہیں۔ وہ روائتی معنوں میں ترقی پسند نہیں تھا مگر اس کی نظموں میں ترقی پسندی کی ناقابل تردید حقیقتیں جھلکتی ہیں۔