بیت اللہ کے تحفظ کی جنگ

حرمین شریفین (مکہ اور مدینہ ) کی مقدس عبادت گاہوں کے خلاف سازشیں صدیوں سے چلی آرہی ہیں۔ ابرہہ نامی ایک عیسائی حضور نبی کریمؐ کی پیدائش سے تقریباً دو ماہ پہلے خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لیئے حملہ آور ہوا تھا لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اْسکے مقابلے کے لیے ابابیلوں (پرندوں) کی فوج بھیج دی جنہوں نے ابرہہ اور اس کے لشکر پر سنگ باری کرکے اْسے رہتی دنیا کے لئے نشان عبرت بنا دیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ابرہہ نے یمن کے دارالسلطنت صنعاء میں ایک عالی شان گرجا گھر بنا رکھا تھا اور چاہتا تھا کہ عرب کے لوگ خانہ کعبہ کی بجائے اْسکے گرجا گھر کو اپنی عبادت کا مرکز بنائیں۔ جب یہ ممکن نہ ہو سکا تو اس نے نعوذ باللہ خانہ کعبہ کو تباہ کرنے کی ٹھان لی اور ہاتھیوں کی فوج لے کر آیا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے پرندوں کے ہول در ہول بھیج دیئے جنہوں نے ایسی کنکریاں برسائیں کہ ابرہہ اپنے لشکر سمیت نیست و نابود ہو گیا۔یہاں تک کہ ابرہہ سمیت اس کی فوج کا ایک آدمی بھی زندہ نہ بچ سکا اور ہاتھیوں سمیت اِن کے جسموں کی بوٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھر گئیں۔ ابرہہ نے خانہ کعبہ کو ڈھانے کا ناپاک ارادہ صرف مذہبی جنون میں ہی نہیں کیا تھا بلکہ اس کی پشت پر کھڑی اس وقت کی عیسائی دنیا کو بحر احمر کی بحری گزرگاہ پر مکمل تسلط درکار تھا کیوں کہ اس زمانے میں جس قوت کے ہاتھ میں بحری گزرگاہیں ہوتی تھیں وہی عالمی اقتصادیات کی حکمرانی کرتی تھی۔ اسلام سے قبل چوں کہ خانہ کعبہ عربوں کا ثقافتی اور مذہبی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا اقتصادی مرکز بھی تھا اس لیے منہدم کرنے کے لئے بڑے جواز کے طور پر ابرہہ نے پہلے یمن میں قائم گرجا گھر کو خود ہی تباہ کیا اور پھر اسکا الزام عربوں پر لگا کر اسلام سے پہلے بیت اللہ کو مٹانے کا ناپاک ارادہ ظاہر کیا لیکن وہ بیت اللہ کو تباہ کر سکا اور نہ ہی اسلام کو مٹا سکا۔ کسی بھی ملک میں اسلحہ کے زور پر اقتدار پر قبضہ کی خواہش کو دینی سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہر ملک اپنے آئین اور دستورکے مطابق ریاستی امور چلاتا ہے اور وہاں کے عوام مروجہ سیاسی نظام کے مطابق اپنے حکمرانوں کا چنائو کرتے ہیں، بعض ممالک میں جمہوری طرز عمل ہے اور بعض کے ہاںصدارتی یا شاہی نظام چل رہا ہے۔جس سے وہاں کے عوا م خوش وہیں وہ نظام انکے ہاں درست اور تسلیم سمجھا جاتا ہے، نظام اقتدار کو اسلام یا کفر قرارنہیں دیا جاسکتا، مقصود عوام الناس کی فلاح وبہبود اور نظم اجتماعی کا قیام ہونا چاہیے۔پاکستان میں جمہوری طرز حکمرانی ہے اگر یہاں کبھی کسی گروہ نے نظام کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا یا اسلحہ کے زور پر اقتدار پر قبضہ کی خواہش ظاہر کی اسے عوا م نے برے طریقے سے نظر انداز کردیا۔ سیاسی یا مذہبی جماعتیں جو پارلیمانی طرز سیاست پر یقین رکھتی ہیں سب نے مل کر ایسی منفی سوچ کی آگے بڑھ کرمذمت کی۔ یمن میں بھی حوثیوں کی طرف سے اسلحہ کے زورپر اقتدار پر قبضے کی کوشش کی گئی جوقانونی اور اخلاقی لحاظ سے درست قرار نہیں دی جا سکتی۔ اور یقیناً اس طرح کاجارحانہ طرز عمل دنیا کا کوئی بھی ملک برداشت نہیں کرسکتا۔ دنیا میں لسانی، مذہبی، گروہی یا فرقہ وارنہ بنیادوں پر اقتدار پر قبضے کی روایات کے ہمیشہ خوفناک نتائج نکلے ہیں۔ وقتی طور پر اگر کسی نے اپنے زور بازو پر یا اپنی دہشت سے قبضہ جما بھی لیا ہے تووہ کبھی پائیدار نہیں رہا۔ یمن کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا ہمسایہ سعودی عرب ہے، جوحرمین شریفین کی وجہ سے ایک مقدس ریاست ہے جس کے ساتھ دین اور اخوت کے رشتہ کی بنیادوں پر کروڑوں مسلمانوں کے محبت وعقیدت کے جذبات ہیں۔یمن کے ساتھ سعودی عرب کی 1800 کلومیٹر طویل سرحد ملتی ہے۔ جہاں سے اکثرحوثیوںکی طرف سے تخریبی کارروائیاں جاری رہتی ہیں، اور سعودی عرب میں مداخلت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ سعودی عرب کی یہ تشویش بجا ہے، انہیں اپنے اقتدارکی نہیں بلکہ حجاز مقدس کو فتنوں سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ یمن کا مسئلہ صرف سعودی عرب کا نہیں بلکہ امت مسلمہ کا مسئلہ بن چکا ہے۔ مشرق وسطی کے ساتھ ساتھ پاکستان پر بھی اس کے منفی اثرات پڑیں گے۔ فرقہ وارانہ آگ کا الائو پوری اسلامی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ پاکستان میں رہنے والے کروڑوں مسلمانوں، حکومت اور پاک فوج کی اس ضمن میں تشویش بالکل بجا ہے۔ پاک سعودی دوستی ایمان اور دینی اخوت کے رشتے میں پروئی ہوئی ہے۔ سعودی عرب پر کسی بھی قسم کی جارحیت اور حملے کو یا پاکستان پر کسی قسم کی جارحیت اور حملے کو دونوں ممالک اپنے اوپر حملہ تصور کریں گے اور برادر ملک کا اسی طرح دفاع کیاجائے گا جس طرح اپنے ملک کی سرحدوں کا تحفظ کیاجاتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ صرف یمن کا اندرونی مسئلہ ہے اس لئے سعودی عرب اور دیگر ملکوں کو وہاں حملے نہیں کرنے چاہئیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حوثی باغی جو یمن کی آئینی و قانونی حکومت کے خلاف مسلح کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں‘ انہوں نے یمنی دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا اور پھر عدن کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے یہ کہناشروع کر دیاکہ وہ صرف یہاں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اگلا ہدف ان کا سعودی عرب ہے تو پھر سعودیہ اور اس کے حامی ممالک کس طرح اس صورتحال سے لاتعلق رہ سکتے ہیں۔خلیجی ممالک اس بات سے بھی خبردار کر چکے ہیں کہ سعودی عرب کی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں بھاری ہتھیاروں کے ساتھ فوجی مشقیں بند کی جائیں اگر اس کے باوجود سرحدوں پر خطرات کھڑے کئے جاتے ہیں توکیا سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کو ایساکرنے والے باغیوں کی بغاوت کچلنے اور اپنے ملک کے دفاع کا پورا حق حاصل نہیں ہے۔بڑی دیر سے صلیبی و یہودی کوشش کر رہے تھے کہ بیت اللہ اور مسجد نبوی والی سرزمین سعودی عرب جس کا دفاع ہر مسلمان اپنے عقیدے و ایمان کا حصہ سمجھتا ہے‘ کو عدم استحکام سے دوچار کیا جائے۔ آج اگر اغیار خطہ میں فسادات کی آگ بھڑکا کرسعودی عرب کو کمزور کرنے اور حرمین الشریفین کو نقصانات سے دوچارکرنے کی سازشیں کر رہے ہیں تو سب ملکوں کو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر متحد ہو کرسرزمین حرمین الشریفین کا تحفظ کرنا چاہیے اور کسی کواس حوالہ سے اغیار کی سازشوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مسئلہ انتہائی حساس ہے۔ سعودی عرب کی سرحدوں کے تحفظ کیلئے ہم سب آخری حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔ سعودی عرب کے دفاع کیلئے پاکستانی حکومت اور افواج پاکستان میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور وہ اس بات پر متفق ہیں کہ حرمین الشریفین کی سرزمین کے تحفظ کیلئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیاجائے گا۔ پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کو واضح طور پر پیغام دینا کہ اسے پاکستانی بری، بحری اور فضائی افواج میں سے جتنی تعداداپنی مدد کیلئے درکار ہوگی پاکستان امت مسلمہ کے روحانی مرکز کے تحفظ کیلئے ضرور پیش کرے گا، خوش آئند مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض نام نہاد دانشورمخصوص ایجنڈے کے تحت اس حوالہ سے بھی قوم کے ذہنوں میں انتشار اور خلفشار پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیںاور یمن میں باغیوں کی قوت کچلنے کیلئے جاری آپریشن کے خلاف خوامخواہ کے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس سے شیعہ سنی لڑائی کے پروان چڑھنے کی باتیں کر رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ یمن کی جنگ کو ایران اور سعودی عرب کی جنگ نہیں سمجھنا چاہیے۔ بعض عناصر جب سعودی عرب کا نام سنتے ہیں تو ان کے تن بدن میں آگ سی لگ جاتی ہے۔ یہ ان کا نظریاتی تعصب ہے جس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ ایک خاص نظریہ کے پیروکار ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے مفاد کے لئے غیر محسوس طریقے سے سعودی عرب کو نشانہ بنا دیں گے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ جب دنیا نے ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے پاکستان پر پابندیاں لگائیں تو سعودی عرب ہی واحد ملک تھا جس نے برسوں تک پاکستان کو مفت ایندھن فراہم کیا اور امداد بھی کی۔ حالیہ دنوں میں ایک بار پھر سعودی عرب نے ڈیڑھ ارب ڈالر قرض میں نہیں دیئے بلکہ تحفے میں دیئے۔ کوئی شرط لگائی اور نہ ہی اس کے بدلے میں کوئی رعایت طلب کی گئی ۔ 2005کے زلزلہ میں جو کردار سعودی عرب اور ترکی نے ادا کیا۔ اسے کوئی بھول نہیں سکے گا۔ آج تک سعودی دل کھول کر زلزلہ متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کے لئے آج 10سال گزرنے کے بعد بھی مصروف ہیں۔ اسلام آباد مظفر آباد شاہراہ پر کوہالہ کے قریب چھتر کلاس میں ایک یونیورسٹی تعمیر ہو رہی ہے۔ یہ کنگ عبد اللہ یونیورسٹی ہے۔ جو تقریباً6ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہو رہی ہے۔بعض عناصر سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ یہ تعلقات کسی فرد کے ساتھ نہیں بلکہ پوری قوم اور ملک کے ساتھ ہیں۔ ہمارے سامنے پاک سعودی تعلقات کی تاریخ میں کوئی بھی ایسی مثال نہیں کہ سعودی عرب نے کبھی پاکستان کو تنہا چھوڑا ہو یا اس نے تعاون کے بدلے پاکستان سے کوئی رعایت طلب کی ہو۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...