اتنا بڑا سانحہ گزر گیا کئی مائوں کی کوکھیں اجڑ گئیں،کئی خاندان اپنے پیاروں کو کھو بیٹھے- پورا ماحول سوگوار ہو گیا- دل خون کے آنسو رو رہا ہے-کچھ سمجھ نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ نے بطور قوم ہمیں اتنی بڑی آزمائش میں کیوں ڈال رکھا ہے کہ کچھ دن سکون سے گزرتے ہیں اور پھر کوئی ایسا سانحہ رونما ہو جاتا ہے کہ زندگی کے تمام رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں اور اس کی تمام سرگرمیوں سے دل اچاٹ ہو جاتا ہے اور دل و دماغ پر عجیب سی مایوسی کے سائے چھانے لگتے ہیں -شاید ہمارا دشمن یہی چاہتا ہے لیکن ہم کو مایوس نہیں ہونا، ہم نے ان تمام مشکلات سے جرات اور ہمت کے ساتھ باہر نکلنا ہے- لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور جہالت و شدت پسندی جیسی برائیوں سے خود بھی بچے اور اپنے خاندان کو بھی بچائے-جب ہم جہالت کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد تاریکی ہے جس میں انسان کو کچھ سمجھائی نہیں دیتا وہ اندھوں کی طرح گرتا پڑتا آگے بڑھتا ہے اسے نہیں پتہ راستے میں کوئی کنواں ہے یا کھائی- اس جہالت کے اندھیرے کو دور کرتی ہے قرآن کی روشنی، کیونکہ قرآن میں اللہ تعالی نے خود فرمایا ہے کہ ’’یہ انسان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لاتا ہے‘‘- لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج ہم نے اس مقدس کتاب کو پس پشت ڈالا ہوا ہے ہم میں سے بہت کم لوگ ہوں گے جنہوں نے قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھا ہو گا- اس کو سمجھنے کی کوشش کی ہو گی- اگر کوئی اللہ کی کتاب کو سمجھنے کی کوشش کرے تو اللہ کا اس سے وعدہ ہے کہ وہ اس کیلئے اس کو آسان کر دیگا- اگرآج ہم نام نہاد ملائوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارا اپنا قرآن کا علم بہت کمزور ہے- ہمار ا عمل قرآن کی تعلیمات کے بر عکس ہے-ہمارا مذہب بہت خوبصورت، بہت آسان اور کامن سنز پر مبنی ہے- تفرقہ بازی اور شدت پسندی کی تو اس میں کوئی گنجائش ہی نہیں- آج جو بچے خود کش حملہ آوروں کی صورت میں ایک عذاب بن کر ہم پر ٹوٹتے ہیں انہیں کوئی بتانے والا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو فساد اور بربادی کرنیوالے کس قدر نا پسند ہیں- یہ کونسی ابلیسی قوتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں انکے والدین کس قدر بدقسمت لوگ ہیں جن کا بچہ سچا مومن بن کر کئی لوگوں کی زندگیوں میں امن سکون اور خوشیاں لانے کی بجائے حرام کی موت مر جاتا ہے اور پیچھے کئی گھروں میں آہ و سسکیاں چھوڑ جاتا ہے جو اگلے جہاں میں بھی عذاب کی صورت اس کا پیچھا کرتے رہیںگے- حکومتی سطح پر جو کوششیں ہو رہی ہیں وہ اپنی جگہ فوج بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے لیکن بطور عام شہری ہمارا بھی ایک رول بنتا ہے- ہم نے اپنے گردونواح میں امن اور سلامتی کا پیغام دینا ہے- اپنے بچوں کو صحیح اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانا ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ ہمارا اپنا دل قرآن کی روشنی سے منور ہو- آج کے دور میں کوئی مشکل نہیں قرآن کو سیکھنا اور سمجھنا، بس تھوڑا سا ٹائم نکالنے کی ضرورت ہے- اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ آپکے سامنے کوئی اللہ کے پیغام کی غلط توجیح پیش نہیں کر سکے گا- آج اسلام کے نام پر جو کچھ ہم بھگت رہے ہیں وہ ہماری اسی جہالت اور سادہ لوحی کا خمیازہ ہے جو ہماری لاعلمی کی وجہ سے ہم پر مسلط ہوئی-اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اسلام کی نام پر بنا، اس کو اسلام کے بتائے ہوئے راستے ہی راس آئینگے، وہی نظام اس میں پنپیںگے جو اللہ کو پسند ہیں لیکن اسلامی نظام قائم کرنے کیلئے پہلے ایسے معاشرہ قائم کرنا ہو گا جس میں سچے مسلمان رہتے ہوں، امن اور سلامتی کا پیغام دینے والے جن کے زیر سایہ اقلیتیں بھی محفوظ و مامون ہوں-کیا آج کے مذہبی رہنما اس بات کا دعوی کر سکتے ہیں کہ وہ نبیؐ کی طرح قرآن کے ذریعے لوگوں کو تزکیہ نفس کر رہے ہیں یا لوگوں کی تربیت اس نہج پر کر رہے ہیں کہ وہ اپنے کردار اور اعمال سے لوگوں کے دلوں اور دماغوں پر حکومت کریں- چند علماء کے علاوہ باقی سب میں یہ چیز منقود نظر آتی ہے- قرآن کا پیغام ہے بھلائی سے برائی کو دور کرو- ہے کوئی ایسا مذہبی رہنما جو ہمارے اندر عدم برداشت، منافرت اور انتہا پسندی جیسی برائیوں کو برداشت، بھائی چارے اور میانہ روی جیسی بھلائیوں سے دور کر دے- مجھے یقین ہے جس دن ہم نے سچے دل سے توبہ کر لی اور اللہ کی کتاب کو ہاتھوں میں تھام لیا اور اس پر عمل شروع کر دیا تو ناصرف دہشت گردی بلکہ اس جیسے کئی اور عذابوں سے بھی ہم نجات پا جائیں گے- انشاء اللہ
سانحہ گلشن اقبال پارک
Apr 06, 2016