پشاور(بیورو رپورٹ) پشاور ہائی کورٹ نے دہشت گردی کے الزام میں ملٹری کورٹس سے موت کی سزا پانے والے دو مزید ملزموں کی سزا پر عملدرآمد روکنے کے احکامات جاری کردیئے اور اس حوالے سے وزارت دفاع و داخلہ اور اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو نوٹس جاری کردیا جبکہ گزشتہ ہفتے تین دیگر افراد کی سزا کی معطلی سمیت تمام کیسز میں ایڈوکیٹ جنرل خیبر پی کے اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کو عدالتی معاونت کیلئے طلب کرتے ہوئے سماعت 12اپریل تک ملتوی کر دی ہے عدالت عالیہ کے جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس مسز ارشاد قیصر پر مشتمل دو رکنی بنچ نے فوجی عدالت سے دہشت گردی کے الزام میں سزائے موت پا نے والے پانچ ملزمان تاج گل ساکن دیربالا، مشتاق احمد ساکن کوز چم سوات، فضل عفار ساکن چارباغ سوات، فتح خان ساکن خیبر ایجنسی اور انوار اللہ ساکن ضلع شانگلا کے خلاف سنائے جانے والے فیصلوں کے خلاف دائر رٹ پٹیشنز پر سماعت کرتے ہوئے جاری کئے۔ دیربالاکے رہائشی عجب گل کی جانب سے دائررٹ میں موقف ا ختیار کیاگیاہے کہ درخواست گزار کے بھائی تاج گل کو تقریبا پانچ سال قبل جرگہ کے ذریعے سکیورٹی فورسز کے حوالے کیا گیا تھا اور اس کے اہل خانہ اس سے متعدد مرتبہ ملاقات بھی کرچکے ہیں، اسی طرح سزا یافتہ فتح خان کی والدہ مسماۃ زربہ خیلہ بیوہ مکرم خان مرحوم کی جانب سے دائر رٹ میں بتایا گیا ہے سائلہ کے بیٹے فتح خان ولدمکرم خان مرحوم کو 20نومبر 2014 کو سربندکے علاقہ سے سکیورٹی فورس نے گرفتارکیا تھا اور کافی عرصہ تک لاپتہ رہا،آخرکار مجبور سائلہ نے 19دسمبر 2015 کو عدالت عالیہ میں درخواست دائرکی تھی جس کے بعد 25مارچ2016 ڈسٹرکٹ جیل کوہاٹ کے سپرنٹنڈنٹ کی طرف ایک سے نوٹس موصول ہوا جس میں سائلہ کو اپنے بیٹے فتح خان کے ساتھ29مارچ2016 کو آخری ملاقات کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ان کے بیٹے کو دہشت گردی میں ملوث ہونے پر 30مارچ کو پھانسی کی سزا دی جائیگی جبکہ سزا یافتہ اکرام اللہ کے بھائی انوار اللہ مانسہرہ کے ایک دینی مدرسہ کا طالبعلم تھا جس کو سیکورٹی فورسز نے 26جون 2014کو مدرسہ کے قریب سے اٹھایا تھا جس پر سکیورٹی فورسز پر حملوں اور دہشت گردی کے دیگر واقعات میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے اسی طرح درخواست گزار کے بھائی فضل غفار ولد فضل رحیم کو 2009سال میں سکیورٹی فورسز نے ضلع سوات سے حراست میں لیا تھا بعدازاں پیتھام حراستی مرکزمیں تھا دائر درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ملزمان کو نہ تو کسی عدالت میں پیش کیا گیا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی چارج شیٹ ہے۔