تحفظ خواتین ایکٹ، دینی جماعتوں نے مذاکراتی کمیٹی کیلئے چار نام بھجوا دیئے، بلاول کی ناراضی

لاہور (خصوصی نامہ نگار+ این این آئی) دینی جماعتوں نے تحفظ خواتین ایکٹ پر مذاکرات کیلئے حکومت کو مذاکراتی کمیٹی کیلئے چار نام بھجوا دیئے، مذاکرات کیلئے جماعت اسلامی کے اسد اللہ بھٹو، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر، ممبر اسلامی نظریہ کونسل مولانا فضل علی حقانی اور سابق صدر سپریم کورٹ بار کامران مرتضیٰ کے نام بھجوائے گئے ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دینی جماعتوں کی قیادت سے مذاکرات پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایوان میں موجود پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت اپوزیش جماعتوں کو مشاورت میں کیوں شامل نہیں کیا جا رہا۔ دریں اثناء امیر جے یو آئی مولانا فضل الرحمن نے نسواں بل پر غور کے لیے دینی جماعتوںکی مجوزہ کمیٹی کے لیے امیرمرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سینیٹر پروفیسر ساجد میر کانام بطور سربراہ نامزد کیا ہے۔ گزشتہ روز پروفیسر ساجد میر نے پنجاب اسمبلی کے منظورکردہ نسواں بل کے متعلق وزیراعلیٰ پنجاب کو 10 صفحات پر مشتمل جوابی خط ارسال کردیا ہے۔ جس میں بیشتر شقوں کو غیر اسلامی اور قرآن وسنت سے متصادم ثابت کیا۔ خط کے مندر جات میں کہا گیا ہے کہ نسواں بل کے ابتدائیہ میں کہا گیا کہ ’’چونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین (اصناف) کے مابین مساوات کی ضمانت دے کر ریاست کو خواتین کے تحفظ کے لیے کوئی خصوصی قانون وضع کرنے کا اختیار دیتا ہے‘‘ ’’اصناف‘‘ یعنی مرد اور عورت کے درمیان مساوات کا تصور سرے ہی سے غلط مفروضے پر قائم کیا گیا ہے۔ اسلام نے عورت کو بھی مرد کی طرح حقوق دیئے ہیں لیکن اس کے ساتھ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 228 میں مردوں کو ان (عورتوں) پر کچھ برتری اور فضیلت حاصل ہے‘‘۔ سورۃ النساء کی آیت34 میں ہے کہ ’’مرد عورتوں پر قوام ہیں‘۔ خط میں کہا گیا کہ یہ ایک غلط مفروضہ ہے کہ اسلام کی نظر میں عورت اور مرد کے حقوق برابر ہیں۔ آپﷺ نے مار پیٹ سے منع نہیں کیا تاہم اسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ مرد ایک نگران کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں تک ہمارے معاشرے میں عورتوں پر تشدد کا تعلق ہے تو اس کی وجوہات جانے بغیر یک طرفہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس بل کی شقوں کے بغور مطالعہ کے بعد مردوں کے حقوق کے لیے ایک الگ بل کی ضرورت کا احسا س جنم لے رہا ہے۔ ہم اس یکطرفہ بل کو مسترد کرتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن