نئے انجن اور ریلوے کا فریٹ سیکٹر

تجارت‘ بروقت ترسیلِ سامانِ تجارت کے بغیرممکن نہیں۔ دنیا کی تمام بڑی معیشتیں بہترین پورٹس تعمیر کرنے میں اپنے وسائل خرچ کرتی ہیں اور ترسیل کے لئے بہترین ٹرانسپورٹ پر تکیہ کرتی ہیں۔ انیسویں صدی میں انگریز نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے مفاد کے زیر نظر سندھ اور بمبئی کو اکھٹا کیا ۔ دونوں بڑی بندر گاہوں سے سامان تجارت ملک کے دیگر حصوں میں پہنچانے کے لئے خصوصاً برطانیہ کی ٹیکسٹائل ملوں تک کاٹن کی ترسیل کی خاطر پہلی ریلوے لائن بمبئی سے تھانے اور دوسری کراچی سے کوٹری تک بچھائی گئی ،پھریہ ریلوے لائنیںبرصغیر کے طول و عرض میں اس طرح بچھائی گئیں کہ ریاست پاک و ہند کا ایک حصہّ دوسرے حصےّ سے جڑجائے۔انگریز حکومت نے ریلوے پر خصوصی توجہ دی۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ نے ریلوے کے ذریعے ہی سامان جنگ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا ۔ اس میں ڈاک کی بوگی، پٹٹری پر چلتا ہسپتال اور اجناس و کوئلہ کی ترسیل کے لئے خاص مال بوگیاں لگائی گئیں۔ 1947تک ریلوے ایک مضبوط ،مربوط اور بہترین انفراسٹرکچر رکھنے والا ادارہ بن چکا تھا۔ تقسےم کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والی ریلوے لائن پانچ ہزار میل سے زیادہ تھی، جس پہ مال گاڑیاں اور مسافر گاڑیاں بڑی تعداد میں چلا کرتی تھیں۔ پھر 1970 کی دہائی میں یہ نظام پہلی بار زوال پذیر ہونا شروع ہوا ،ادارے کا خسارہ آہستہ آہستہ بڑھتا رہا، منافع کم ہوتا گیا جس کی کئی وجوہات تھیں مختلف ادوار میں پاکستان ریلوے نے بڑے مدوجزر دیکھے ۔ کسی دور میں اسے بڑے بیل آﺅٹ پیکج دے کر بچایا گیا تو کسی دور میں نئے انجن اور بوگیاں منگا کر زیادہ ٹرینیں چلائی گئیں۔ پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے اور وژن کی کمی کے باعث ریلوے ہر بار اُڑان کے بعد ناک کے بل زمیں پر آگرتی۔اِس کی صورتِ حال بد سے بدترہوتی گئی یہاں تک کہ 2013میں اوسطاً ایک سے دو مال گاڑی کراچی سے روانہ کی جاتی جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کاروباری حضرات نے روڈ ٹرانسپورٹ پر مکمل انحصار کرنا شروع کر دیا تھا۔ ریلوے کی آمدن کا اصل حصہّ فریٹ ٹرین یا مال گاڑی سے ہی آتاہے اور اگر پونے بارہ ہزار کلومیٹر کے ٹریک پر پاکستان جیسے بڑے ملک میں ایک مال گاڑی ہی رواں ہو تو بد حالی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ موجودہ قیادت نے اس بد حال، مفلوک ادارے کی طرف Busines Approachدکھائی اورہیڈکوارٹرمیں افسران کے ساتھ سرجوڑکربیٹھے ، میرا تھون بحث و مباحثوں کے بعد یہ جانا کہ پُرانے انجن بوڑھے ہوگئے ہےں اوراب لوڈ نہیں کھینچ سکتے،کچھ اپنی زندگی پوری کر چکے اب اس کے فریٹ سیکٹرکو بحرانی کیفیت سے نکالنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ نئے انجن خریدے جائیں۔ سو پاکستان ریلوے نے اپنے فریٹ سیکٹر کو زندہ کرنے کے لئے امریکہ کی مشہور کمپنی جنرل الیکٹرک کے ساتھ انجن خریدنے کا معاہدہ کیا گیا۔ کُل پچپن انجن خرےدے گئے ہیںجوایک طے شدہ ٹائم فریم میں پاکستان پہنچائے جائیں گے ان میں سے دو کھیپ وصول کر لی گئی ہیں اور اسی سال جولائی تک باقی تمام انجن پاکستان پہنچ جائیں گے۔ ان انجنوں کا پاکستان ریلوے کے فریٹ میں اضافہ تاریخی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اب تک صرف 2500ہارس پاور کے انجن استعمال کئے گئے جو 250ٹن وزن کھینچ سکتے ہیں۔ جبکہ نئے آنے والے انجن تقریبا ڈبل طاقت رکھتے ہی4500سے 4000ہارس پاور کے ہیں اور سواہزار ٹن اضافی وزن کھینچ سکتے ہیں۔ یہ ڈیزل انجن کم توانائی استعمال کریں گے اور ماحول دوست بھی ہیں ۔ ان کا بریک سسٹم خصوصی طور پر ڈیزائن کیا گیاہے۔ نئے انجن 120کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر سفر طے کریں گے جبکہ موجودہ فریٹ کی اوسط سپیڈ 90 ہے۔ ماہرین نے ان انجنوں کو پٹٹریوں پر ٹیسٹ کر لیا اور ہر طرح تسلی کر کے ان کو ایک ایک کر کے فریٹ میں شامل کیا جا رہا ہے۔ سامان کی ترسیل کے لیے دوسری اہم چیزبوگیاں ہیں۔مال بردار بوگیاں مختلف اقسام کی ہوتی ہیں ان میں ہوپر ویگن خصوصی اہمیت رکھتی ہے ۔ یہ پیالے کی طرح گہری ہوتی ہے اس میں زیادہ تر خشک سامان ٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے جیسے کہ کوئلہ یا اجناس وغیرہ۔ ساہیوال میں چلنے والے کوئلے کے پاورپلانٹ کے لیے کوئلہ انھی ہوپر ویگنو ں میں کراچی سے قادرآباد تک پہنچایا جائیگا۔ ہوپر ویگنوں کی بڑی تعداد تقریباً 900کے قریب پاکستان میں ہی ریلوے کی اپنی لوکو موٹیوز ورکشاپ میں تیار کی جائیں گی جبکہ 500کے لگ بھگ چائنہ سے خریدی جائیں گی۔ ریلوے کی فیکٹریوں میں کام شروع ہونا خوش آئند ہے کہ مزدوروں کے گھر کا پہیہ اور ٹریک پر ریل، دونوں چلتے رہیں گے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اوسطا 10-12 فریٹ ٹرینیںٹریک پر چل رہی ہیں ۔ ساہیوال کول پاور پلانٹ تک کو ئلہ کہ ترسیل کچھ عرصہ قبل شروع ہوچکی ہے اور جلد مکمل طور پر آپریشنل ہو جائیگی جس کے بعد مال گاڑیوں کی تعداد اوسطا 15-16تک جاپہنچے گی، اس سے ریلوے کے فریٹ سیکٹر کو پہلے فیز میں 13ارب اضافی آمدن کی توقع ہے۔ کاروباری حضرات کو ماضی میں خراب اوقات اور ترسیل میں تاخیر کی وجہ سے روڈ ٹرانسپورٹ پر انحصار کرنا پڑا۔ ان انجنوں کے شامل ہونے کے بعد یہ جدید تر‘ تیز رفتار اور محفوظ ذریعہ نقل وحمل ہو گا جس کا خیرمقدم ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...