امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو حلف لئے ابھی 20,15 دن گزرے تھے کہ امریکہ نے ان ممالک کے شہریوں پر ویزا پابندیاں عائد کیں جن ممالک کے اقتدار اعلیٰ، معیشت اور معاشرت کو مغرب نے مل کر تہہ و بالا کیا تھا۔ یورپ اور امریکہ میں تارکین وطن پہنچنے شروع ہوئے تو میزبان ممالک کو دہشتگردی کو اپنے ملک کے اندر آتا ہوا نظر آیا اور خوف لاحق ہوا کہ کہیں ان کا اپنا داخلی امن برباد نہ ہو جائے۔ لہٰذا مغرب نے امریکہ کی قیادت میں طے کیا کہ دہشتگرد تنظیموں کی مزید پرورش کا سلسلہ بند کیا جائے تاکہ یہ لوگ بے قابو نہ ہونے پائیں اور دوسرے مرحلہ میں ان دہشت گردوں کو ختم کر دیا جائے۔ شام میں علیحدگی پسندوں، القاعدہ اور داعش کو ختم کرنے کیلئے روس، ترکی، ایران اور شام مل کر آپریشن کریں تاکہ ان کا صفایا ہو جائے۔ عراق میں امریکہ، ترکی، عراق اور ایران اپنے اپنے ذمہ داری کے علاقہ جات میں القاعدہ، داعش اور کرد علیحدگی پسندوں کو ختم کریں۔ افغانستان میں، امریکہ، افغانستان، پاکستان اور ایران اپنے اپنے علاقہ جات اور ملحقہ افغانستان کی سرزمین کے اندر آپریشن کر کے، طالبان، القاعدہ، جماعت الاحرار، داعش اور دیگر تنظیموں کا صفایا کریں۔ عراق اور شام میں پاکستان اور ایران نئی جنگ میں الجھنے کیلئے ابھی تک رضامند نہیں ہوئے۔
موجودہ امریکی قیادت روسی قیادت کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ روس، چین، ایران، ترکی اور پاکستان میں بھی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ شام، عراق اور افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کیلئے امریکہ، روس اور چین متفق ہیں کہ دہشتگرد تنظیموں کو ان ممالک کے امور مملکت میں حصہ نہیں ملنا چاہیے۔ چونکہ مذکورہ تنظیمیں امور مملکت میں مضبوط حصہ لئے بغیر راضی نہیں ہوں گی اس لئے ان کو ختم کرنا ہی بہتر ہو گا۔ اس بناء پر ترکی اور ایران اور روس نے شام میں اپنے اہداف حاصل کرنے کیلئے کارروائیاں جاری رکھیں اور عراق میں بھی ترکی اور ایران اپنا کام کر رہے ہیں۔ روس، چین اور امریکہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور ایران اپنی سرحدوں کے قریب، افغانستان کی سرزمین کے اندر جا کر طالبان، داعش، القاعدہ اور جماعت الاحرار کے ساتھ جنگ کر کے انہیں ختم کر دیں۔ اسی ماہ امریکہ کے اہم ایلچی پاکستان تشریف لائے اور اعلیٰ سول و عسکری قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ ساتھ ہی پاکستان کے اندر لاہور، کوئٹہ، سیہون شریف اور خیبر پختونخوا میں پانچ روز میں دہشت گردی کے سات واقعات ہوئے۔ پاک فوج اور فضائیہ نے خیبر ایجنسی سے متصل افغان سرحد پار جماعت الاحرار کے کیمپ پر بمباری، گولہ باری اور راکٹ حملے کر کے انکو نقصان پہنچایا تو عوام میں اسکی پذیرائی ہوئی اور امریکی انتظامیہ نے مشورہ دیا کہ کابل کی رضامندی سے پاکستان، افغانستان کے اندر جا کر آپریشن کرے۔ ابھی 23 فروری کو لاہور ڈیفنس کے اندر دہشتگردی کروائی گئی۔ یہ تمام دہشتگردی امریکی ایماء پر انڈیا اور افغانستان نے مشترکہ طور پر کروائی ہے تاکہ پاکستان جب کبھی افغانستان کے اندر جا کر جنگ کرے تو پاکستان کے عوام میں اس عمل کو پذیرائی ملے اور پاکستان کی پارلیمان حسب دستور خاموش اور بے عمل رہے۔
افغانستان میں انڈیا نے پاکستان کی سرحدوں کیساتھ ہر قابل ذکر شہر میں قونصل خانے قائم کئے ہیں۔ ان 12,10 قونصل خانوں میں ’’را‘‘ کے عملے کے علاوہ تقریباً مجموعی طور پر دس ہزار کمانڈو مسلح فورس بھی تعینات ہے۔ ’’را‘‘ کی منصوبہ بندی کے مطابق انڈین مسلح افواج، تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور جماعت الاحرار کیساتھ مل کر پاکستان کی سرحدی پوسٹوں پر حملے کرتی رہتی ہیں۔ اس صورتحال میں اگر افواج پاکستان، افغانستان کے اندر جا کر آپریشن کرتی ہیں تو ان کو تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار، القاعدہ، داعش اور دس ہزار انڈین عسکری قوت کی مشترکہ فورس کا سامنا کرنا پڑیگا جو افواج پاکستان کیلئے انتہائی خطرناک صورتحال ہو گی اس لئے موجودہ صورتحال میں افغانستان سرزمین پر پاکستانی افواج کے بوٹ نہیں جانے چاہئیں۔ البتہ اپنی سرحدی حدود کے اندر رہ کر راکٹ باری، بم باری اور گولہ باری کر کے طالبان، جماعت الاحرار، داعش اور القاعدہ کے دہشت گردوں کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ اسکے علاوہ افغانستان کے ساتھ سرحد بند کی جائے اور غذائی اشیاء یعنی آٹا، گھی، دالیں اور ایندھن اور دیگر تجارتی مال کی افغانستان میں روانگی مکمل طور پر غیرمعینہ مدت کیلئے بند کر دی جائے تاکہ افغان حکومت پر عوامی دبائو آجائے اور وہ انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کے اندر دہشتگردی سے باز رہے۔ انڈیا کے قونصل خانہ جات بند کرے اور انڈین افواج کو اپنے ملک سے نکالے۔
افغانستان کی سرزمین ویران پہاڑی علاقہ پر مشتمل ہے۔ میدانی علاقہ میں نہری نظام محدود ہے۔ ملک کا 15% فیصد رقبہ قابل کاشت ہے جبکہ اس کا ¼ حصہ یعنی ملک کا تقریباً 4% فیصد رقبہ غلہ کی کاشت کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ مقامی غلہ کے علاوہ غذائی ضروریات کیلئے گندم، چاول، دالیں اور گھی پاکستان سے اور پاکستان کے راستے سے درآمد کیا جاتا ہے۔ افغانستان اپنی ضروریات کی گندم پاکستان سے آٹے کی صورت میں خیبر پختونخوا کی آٹا ملوں سے ادھار لیتا ہے۔ یوں تاجروں کو سرمایہ کاری کئے بغیر منافع ملتا ہے اور عوام کو سستی غذائی اشیاء ملتی ہیں۔ پاکستان سے تجارت کی بندش کی صورت میں انہیں غذائی اشیاء قازقستان سے درآمد کرنی پڑتی ہیں جو نقد کا کاروبار ہے اور تین ممالک تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان سے گزار کر لانا پڑتی ہیں۔ یہ دشوار اور مہنگا کاروبار ہے اور عوام کو غذائی اشیاء مہنگی پڑتی ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان کو افغانستان کی تجارت روکنے کا جواز بھی موجود ہے۔ پاکستان کے عوام توقع کرتے ہیںکہ سول و عسکری قیادت پاکستان کو افغانستان کی سرزمین کے اندر جا کر لامتناہی خونریز جنگ میں الجھانے سے گریز کریگی۔
دہشت گردی کیخلاف نئی لڑائی
Apr 06, 2017