اسلام آباد (صباح نیوز)سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تقرری کے خلاف درخواست خارج کردی ۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز تعیناتی کیس کی سماعت کی تو درخواست گزار حنیف راہی نے موقف اپنایا کہ ان کی جانب سے 2نوٹیفیکیشنز کے خلاف درخواست دی گئی ہے۔ 5اگست 2009ءکو پہلا نوٹیفیکیشن جسٹس قاضی کوچیف جسٹس لگانے کیلئے جاری کیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ اس نوٹیفیکیشن میں کیاخرابی ہے ۔ درخواست گزار نے کہاکہ اس میں 2آئینی شقوں 105،196 کی خلاف ورزی کی گئی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ متعلقہ دونوں شقیں پڑھیں وکیل نے شقیں پڑھیں تو چیف جسٹس نے کہاکہ جب پوری ہائی کورٹ فارغ ہوگئی توصورتحال پر196لاگونہیں ہوگاکیونکہ پہلے چیف جسٹس کی تقرری آرٹیکل 193کے تحت کرناتھی۔ درخواست گزار نے کہاجسٹس مقبول باقراب سپریم کورٹ میں جونیئر ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پہلی سینارٹی جج کی تقرری سے متعلقہ نہیں ہوگی۔سپریم کورٹ کے جج کی سینارٹی حلف لینے سے ہوئی ۔ درخواست گزار نے کہاقائمقام گورنر نے آخری دن ان کی تعیناتی کی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کوکیسے معلوم یہ تقرری وزیراعلی کی منظوری کے بغیر ہوئی درخواست گزار نے کہاکہ میں نے بیان حلفی دیاہے چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ آپ اس معاملہ میں قانونی نکات بتائیں کیونکہ 2016میں آپ کی درخواست کے وقت وہ سپریم کورٹ کے جج بن چکے تھے۔یہ ساری باتیں درخواست کے وقت غیرمتعلقہ ہوجاتی ہیں ، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ سپریم کورٹ جج کی تقرری کاکیامعیار ہے؟ پاکستان بار کے وکیل علی ظفرنے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ مجھے سپریم کورٹ بار اور لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے وکیل کیاگیا۔ سپریم کورٹ بار کاموقف ہے کہ ججز تقرری کاطریقہ عدلیہ آزادی کے لیے اہم ہے۔ ہمارا موقف ہے اگر یہاں جج کی تقرری کامعاملہ آیاہے توقانون پر عمل ہوناچاہیے۔ کئی فیصلوں میں تقرریوں کی شفافیت کاعدالت کہہ چکی ہے۔آئین میں پہلے جج کی تقرری ہونی چاہیے تھی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ کیا چیف جسٹس کے بغیر جج کی تقرری ہوسکتی ہے،ہائی کورٹ قانون بھی دیکھا۔ چیف جسٹس نے کہابغیر چیف جسٹس ، کسی جج کی تقرری نہیں ہوسکتی لیکن آپ کو اس وقت کی صورتحال بھی دیکھنا ہوگی۔ علی ظفر نے کہاکہ اس وقت قائمقام چیف جسٹس کا تقرر بھی کیاجاسکتاتھا۔چیف جسٹس نے کہاکہ فاضل جج کی تقرری کے وقت تمام ضروری قوانین کا خیال رکھاگیاتھا۔ مشاورت مکمل کرکے تعیناتی کی گئی تھی۔ علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہاکہ وزیراعلیٰ سے اس وقت مشاورت کی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا کیا ثبوت ہے ؟یہ صرف قیاس آرائی ہے۔کیا تعینات کیاگیا شخص اہل نہیں تھا ؟ اس پر بار کے وکیل نے درخواست کی کہ حکومت سے ریکارڈ طلب کیاجائے ۔ان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاکہ میرانکتہ قائمقام گورنر سے مشاورت کاہے ۔علی ظفر نے کہاکہ اتوار کے روز قائمقام گورنر کونوٹیفیکیشن کا کہا گیا اور کوئی فہرست بھی نہیں دی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک معراج خالد نے بطور قائمقام وزیراعظم اہم فیصلے کئے جو منظور ہوئے لیکن مشاورت تو فون پر بھی ہوسکتی ہے ۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سے اتفاق نہ کرتے ہوئے درخواست خارج کردی ۔
جسٹس قاضی فائز