ملی مسلم لیگ بھی دہشت گردی فہرست میں شامل

Apr 06, 2018

کرنل (ر) اکرام اللہ....قندیل

یہ ایک تازہ ترین حالات کے پس منظر میں ایک بہت بڑی خبر ہے۔ بعض انگریزی اور اردو اخبارات نے اپنے صفحہ اول پر حافظ سعید کی فوٹو گراف کے ساتھ شائع کیا ہے جبکہ میڈیا کے ایک حصہ نے اس خبر کو سائیڈ لائن کے طور پر شائع کرتے ہوئے اس خبر کے پاکستان کے موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ابھی تک کوئی تفصیلی جائزہ پیش نہیں کیا۔ امریکہ کے محکمہ خارجہ نے الزام لگایا ہے کہ ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) درحقیقت لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) کا ہی ہم خیال سیاسی حصہ ہے جو چند ماہ بعد جولائی میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک خاص کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ جبکہ حکومت نے ابھی تک ملی مسلم لیگ کا نام الیکشن کمیشن میں سیاسی جماعتوں کی فہرست سے خارج نہیں کیا۔ ادھر جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید نے امریکی کارروائی کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ دوسری طرف بھارت کے مختلف حصوں خصوصی طور پر بھارتی وزارت خارجہ نے امریکی کارروائی کو سراہتے ہوئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ لشکر طیبہ چند سال پہلے سے ممبئی کے مشہور ہوٹل تاج محل میں دہشت گردی کی ذمہ دار تھی۔ اگرچہ وہ ابھی تک اس الزام کا سوائے پراپیگنڈا کے کوئی ٹھوس ثبوت کسی عالمی یا بین الاقوامی ادارے میں پیش نہیں کر سکے لیکن امریکہ کی طرف سے ایم ایم ایل کو امریکی دہشت گردی کی تازہ ترین فہرست کو بہانہ بنا کر بھارتی میڈیا اور را نے یہ پراپیگنڈا بھی شروع کر دیا ہے کہ چند سال پہلے نیو دہلی میں پارلیمنٹ پر ایک حملہ بھی لشکر طیبہ کی ماسٹر مائنڈ کی کارروائی تھی۔ جس کے پیچھے بھی حافط سعید کا بڑا ہاتھ تھا اب کہا جا رہا ہے کہ ملی مسلم لیگ کی حال ہی میں پیدائش بھی حافظ سعید ہی کی ماسٹر مائنڈ سکیم ہے اور وہ امریکہ میں اپنی لابی کے ذریعے ہر کوشش کر رہے ہیں کہ ملی مسلم لیگ کی قیادت کو لشکر طیبہ اور حافظ سعید سے جوڑا جائے۔ اس موقع پر پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے کوئی واضح موقف اس ایشو پر سامنے نہیں آیا کہ ایم ایم ایل کے خلاف جو کارروائی بھی امریکن حکومت اٹھائے گی پاکستان حکومت اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ امریکہ میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے دہشت گرد کی تازہ ترین فہرست کے باضابطہ جاری ہونے پر بھارتی اور امریکہ و دیگر مغربی ممالک میں انڈین لابی پاکستان کے خلاف سرگرم ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جس سے فوری طور پر بظاہر لگتا ہے کہ ملی مسلم لیگ اب اپنے آپ کو پاکستان الیکشن کمیشن کے سامنے ایک سیاسی پارٹی کے طور پر رجسٹرڈ قرار پانے کے راستے میں اگلے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے مشکلات میں الجھ سکتی ہے۔ جبکہ اس سے بیشتر ملی مسلم لیگ لاہور کے ضمنی انتخابات حلقہ NA-120میں جو میاں نواز شریف سابق وزیراعظم کی نا ا ہلی کی وجہ سے خالی ہوا تھا اس میں حصہ لیا تھا لیکن اب حالات مختلف ہو گئے ہیں اور ملکی سیاست پر چاروں صوبوں اور مرکز میں خصوصاً دینی اور مذہبی جماعتوں کے اندر مختلف گروپ کیا موقف اختیار کرینگے آنے والا وقت ہی بہتر بتائے گا۔ ایک طرف مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کے محترمی لیاقت بلوچ نے متحدہ مجلس عمل میںجان ڈالنے کی کوشش میں جو راستہ چنا ہے اس پر گہری نظر رکھنے والے ایک نیا منظر نامہ مذہبی افق پر دیکھ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ دوسری بڑی سیاسی و دینی جماعتیں نئے دھڑے بندیوں کا نیا میدان پیش کرتے ہیں۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ فیض آباد انٹرچینج اسلام آباد دھرنے کا مسئلہ اب ٹھنڈا پڑ چکا ہے لیکن تحریک لبیک یا رسول اللہ کے سربراہ جناب خادم حسین رضوی نے منگل وار کو ملک بھر میں احتجاج کی کال دی ہے کہ فیض آباد کے معاہدہ پر من و عن عملدرآمد کرنے میں مزید التواء برداشت نہیں کیا جائے گا اور اس معاہدہ کے مطابق جو شرائط منظور ہوئیں تھی اس پر بھی فوری عمل کیا جائے۔ اس احتجاجی نوٹس پر شہر لاہور کی سڑکیں گزشتہ دو دن سے جس ٹریفک جام کا مظاہرہ کر رہی ہیں سب کے سامنے ہے۔ داتا دربار کے سامنے دھرنا نے نہ صرف راوی روڈ داتا دربار چوک ضلع کچہری کی بیشتر سڑکیں کنٹینر لگا کر عوام کی نقل و حرکت کیلئے عذاب کی صورت اختیار کر چکے ہیں نہ صرف یہ علاقہ ٹریفک کے لئے چوک بن چکا ہے بلکہ ایک طرف چوبرجی سے آگے ٹھوکر نیاز بیگ تک دوسری طرف فیروزپور روڈ‘ جیل روڈ‘مال روڈ اور ریلوے اسٹیشن تک مکمل علاقہ فریادی بن کر چیف جسٹس آف پاکستان کو اس قیامت صغریٰ کی صورتحال کا نوٹس لینے کی فریاد کر رہا ہے۔ اگر اس پورے علاقے میں ٹریفک مزید چند روز ایسے ہی مفلوج رہا تو ذمہ داری کس کی ہو گی۔
حضرت عمر فاروقؓ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اگر دجلہ اور فراط کے کنارے ایک کتا بھی بھوک پیاس سے مر جائے گا تو قیامت کے روز اس کی جواب دہی ہو گی۔ آج کل ٹریفک کا عذاب ایک طرف اور بیڈ گورننس کی وجہ سے دیگر مظالم اس قدر لرزہ خیز ہیں کہ قلم بیان کرنے سے قاصر ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی بدقسمت علاقے میں کوئی نہ کوئی بدقسمت بچی وحشیانہ زیادتی کا شکار ہوتی ہے۔ بعض واقعات کا ریکارڈ پر آنے کے بعد نوٹس لیا جاتا ہے اور بعض بچیاں بغیر نوٹس بغیر تھانے کے ریکارڈ پر آنے کے بغیر بے غورو کفن غیرت کے نام پر کئی من مٹی کے نیچے دفن ہو جاتی ہیں۔ حالات اسی طرح بے قابو ہوتے جا رہے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ قومی سطح پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس بھیانک صورتحال کا نوٹس لیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے انتخابات سے پہلے ہی صورتحال پارلیمانی اور صوبائی اسمبلیوں کے کنٹرول سے نکل کر گلی کوچوں میں پھیل جائے تو کیا اس خوفناک گھڑی کا چپ چاپ انتظار کرنا ہے یا سب کو ایمان اتحاد اور تنظیم کا نمونہ پیش کرتے ہوئے ریاست کو آنے والے طوفان سے بچانے کے لئے کچھ کرنا ہے۔

مزیدخبریں