بلاشبہ جس طرح ہم ’’جمہوری‘‘ سیاستدانوں اور شب خون مارنے والے آمروں، ڈکٹیٹروں کو ہر وقت کوستے ہیں کہ انہوں نے گزشتہ 70سال میں نہ تو وطن عزیز پاکستان کے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے کچھ کیا اور نہ ہی عوام کے بنیادی مسائل اور ضروریات کو پورا کیا بلکہ انہوں نے ملک کے ساتھ ’’کھلواڑ‘‘ ہی کیا۔ ساتھ ہی ہم یہ بھی کہنے میں حق بجانب ہیں کہ گزشتہ 70سال میں ہم نے اپنی حیات مستعار میں سپریم کورٹ کے کسی بھی چیف صاحب کو اس قدر عوامی مسائل حل کرنے میں دلچسپی لیتے نہیں دیکھا جو ماشاء اللہ آپ شب و روز لے رہے ہیں۔ جناب چیف جسٹس آپ کا یہ فرمانا کہ ’’ایگزیکٹو بدنیتی کرے تو عدلیہ کو آئین کے تحفظ کیلئے آگے آنا پڑتا ہے‘‘ اور یہ کہ ’ہم لوگوں کی داد رسی نہیں کریں گے تو کون کرے گا، بنیادی حقوق کا تحفظ ہماری آئینی ذمہ داری ہے‘‘ بالکل درست ہے تو جناب بلاشبہ قومی زبان اُردو کی آئینی شق1 (251)بھی جناب کی توجہ کی منتظر ہے۔20کروڑ پاکستانی عوام ’’ نفاذ اُردو‘‘ کے لئے آپ سے انصاف کے طالب ہیں۔ جناب بانیان پاکستان حضرت قائداعظم، علامہ محمد اقبال نے اردو زبان کو قیام پاکستان سے پہلے ہی نئی مملکت خداداد کی قومی سرکاری زبان قرار دے دیا تھا۔ اس ضمن میں بانی پاکستان قائداعظم نے کئی بار ارشادات فرمائے جن کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ جناب آپ فرماتے ہیں کہ آپ نے آئین کے تحفظ کی قسم کھا رکھی ہے تو جناب 1973ء کے آئین کی شق (1)(25) میں واضح درج ہے کہ پاکستان کی قومی و سرکاری زبان اُردو ہو گی اور پندرہ سال کے اندر یعنی 1988ء تک اس کو پورے ملک میں عملی طور پر نافذ کر دیا جائے گا۔ جناب اب تک کئی پندرہ سال گزر چکے ہیں مگر ابھی تک اس اہم قومی اور بنیادی مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ جناب 70سال میں مقاصد حصول پاکستان میں سے صرف ایک مقصد کو بھی ابھی تک آئینی تحفظ فراہم نہیں کیا جا سکا۔ یہ ہمارے لئے باعث شرمندگی ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں سپریم کورٹ کے جسٹس ایس۔کے خواجہ صاحب کا فیصلہ بھی آ چکا ہے مگر حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عدلیہ نے بھی اپنی آنکھیں کان بند کئے ہوئے ہیں۔ جناب چیف جسٹس صاحب آپ کے بقول ’’ایگزیکٹو بدنیتی کرے تو عدلیہ کو آئین کے تحفظ کیلئے آگے آنا پڑتا ہے‘‘ تو جناب قومی زبان اُردو کے نفاذ کے بارے ایگزیکٹو 70سال سے بدنیتی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اب آپ کا یہ فرض اولین اور آئینی ذمہ داری ہے کہ آپ فوراً نفاذ اُردو کیلئے عملی اقدامات اٹھائیں۔ جناب ہر زندہ اور غیرت مند قوم کو اپنی ثقافت عزیز ہوتی ہے اور وہ اسے کسی قیمت پر بھی مٹتے ہوئے یا برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتی چاہے اس کیلئے اسے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے لیکن ہم ابھی تک اپنی قومی زبان اُردو کو فروغ نہیں دے سکے بلکہ ایک غیر ملکی زبان کے سحر میں گرفتار ہیں۔ ہمارے دل میں اپنی کسی روایت سے وابستگی اور اپنی میراث کے کسی حصہ سے لگائو کا شائبہ بھی نہیں رہا۔ ہمارے اس احساس کمتری کا حال یہ ہے کہ ہمارے مکانوں، محلوں، راستوں، اداروں، کارخانوں حتیٰ کہ روز مرہ کے استعمال کی اشیاء تک کے نام غیر ملکی ہیں حالانکہ بانی پاکستان نے فرمایا تھا ’’ میں آپ کو صاف طور پر بتا دوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہو گی اور کوئی دوسری نہیں جو کوئی آپ کو غلط راستے پر ڈالے وہ در حقیقت پاکستان کا دشمن ہے‘‘ ہم من حیث القوم اپنی انگریزی پسندی میں اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ شاید انگریز بہادر خود بھی اپنے آپ کو اتنا پسند نہ ہو جتنا کہ ہمیں پسند ہے۔ چائنہ جس سے آج ہم سی پیک کے بندھن میں بندھے ہیں، ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا تھا۔ اس کی بھی اپنی زبان چینی ہے۔ ہمارے حکمران چین دوستی کی وجہ سے چینی زبان کو پاکستان میں لازمی قرار دینے کی سوچ میں مبتلا ہیں۔ کس قدر بے حسی کی بات ہے ہمیں اپنی ثقافت مقدم اور عزیز کیوں نہیں ہے؟ آج ہمارے بچے ان کتابوں کے ناموں سے بھی واقف نہیں جو کبھی ہمارے لئے مشعل راہ تھیں۔ کبھی ہم نے اس پہلو پر بھی غور کیا ہے کہ اپنی ثقافت سے دوری کے نتائج کیا نکلیں گے۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ غریبی کے ساتھ آزادی اور عزت غلامی کی خوشحالی سے بہتر ہے۔ جناب چیف جسٹس صاحب اگر دوسروں کی تہذیب و تمدن کو اختیار کرکے یا تنگ قمیضوں، چست پتلونوں اور جسم کی ساخت کی نمائش سے ترقی یافتہ اقوام کی صف میں جگہ مل جاتی تو پھرنہ کسی کتب خانے کی ضرورت تھی، نہ کسی جامعہ کی، نہ کسی دانش کدہ کی نہ کسی تحقیقی ادارہ کی نہ مطالعہ اور جستجو کی اگر دوسروں کی زبان پر ہی ترقی کا انحصار ہوتا تو جاپان علوم و فنون میں ہم سے بہت پیچھے ہوتا اور علمی دنیا میں آج اسے وہ فوقیت حاصل نہ ہوتی جو یورپ اور امریکہ میں بھی باعث رشک ہے۔ آخر کیا دیوانگی ہے جو ہم نے اپنے اوپر طاری کر لی ہے کہ ہم اپنی زبان، اپنی تہذیب کو پس پشت ڈال کر انگریزی زبان اور تہذیب و تمدن کی اندھا دھند پیروی کر رہے ہیں۔ آئین کی شق (1)251 آپ سے عمل کرانے کی متقاضی ہے۔ اگر ہم دنیا کی زندہ اور باشعور قوموں کی صف میں اپنا نام رقم کرانا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی زندگی کے ہر شعبے میں دنیا کی دوسری باشعور قوموں کی طرح اپنی قومی زبان اُردو کو عملی طور پر نافذ کرنا ہوگا اور یقین جانیئے کہ ہماری بقاء اور ہم آہنگی کا راز اسی میں مضمر ہے۔ جناب چیف جسٹس صاحب پاکستانی قوم کو ’’نفاذ اُردو‘‘ کا تحفہ دے کر ممنون فرمائیں۔ قرارداد پاکستان بھی قومی زبان اُردو کے نفاذ کی متقاضی ہے۔