بھارت کی بدقسمتی ہے اور 'انتہا کی بدقسمتی' کہ اس کے روشن خیال اور اعتدال پسند دانشوروں' مفکروں' صاحب الرائے ثقہ صحافیوں' ادیبوں کے پاس بھی اس کے بے سروپا دعوئوں کو سچ ثابت کرنے کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے۔آخر وہ کتنا جھوٹ لکھ سکتے ہیں آنکھوں دیکھی اپنی رائے‘اپنے موثراور ٹھوس تجزیوں پر مصلحت پسندی کے کتنے آمیزے اور کتنے لبادوں کاسہارالے کربھارت کے اُن منہ زور جنونیوں کا دفاع کریں، جنہوں نے ’ہندوقومیت‘ کے حقیقی مزاج اور پراچینی ہند کی تہذیبی برائیوں اور خرابیوں کو اب مزید کھل کھلا کر اپنی آئے روز کی غنڈہ گردی سے باقاعدہ دیش میں ’سماجی و معاشرتی نفرتوں کی جنگ‘ شروع کررکھی ہے بھارتی معاشرے میں عدم رواداری اورعدم برداشت کے نفرتوں پر مبنی اِن منفی رویوں پر اب تو کافی ناراضگی اور بر ہمی کے تذکرے عام سنے جاسکتے ہیںسماجی نفرتوں پر مبنی رویوں کا کھل کر کہیں اظہار نہیں ہورہا اور نہ دیش میں بڑھتی ہوئی 'ہندوتوا' کی جنونی غنڈہ گردی کے خوف کے زیراثر اعلیٰ روشن خیال حلقوں میں کھلے طور کوئی بات کرنے میں پہل پر آمادہ ہے وجہ یہی ہے کہ رہنا تو اْنہوں نے بھارت ہی میں ہے سوشل میڈیا اِس سلسلے میں کافی سرگرم ہے بھارتی سوشل میڈیا پر ایک ایسی 'ویڈیو' نے پْرامن طبقے میں کافی ہیجان برپا کردیا ہے ویڈیو میں دکھایا گیا ہے 'ایک ہندو نوجوان نے ایک بزرگ مسلمان کی داڑھی کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اْس پر تھپڑوں کی بوچھاڑ کررکھی ہے وہ جنونی ہندو کہہ رہا ہے'بول جے شری رام' جبکہ مظلوم بزرگ مسلمان باربار آسمان کی جانب نگاہ کرکے کہہ رہا ہے 'اے میرے پروردگار' جس پر ہندوجنونی نوجوان کیمرے کے فوکس میں آکر کہتا ہے 'میں بھی دیکھتا ہوں یہ کیسے جے شری رام نہیں بولتا' اتنا کہنے کے بعد نام نہاد جمہوری ترقی یافتہ بھارت کے جنونی ہندو نوجوان نے اْس بزرگ مسلمان کو یہ کہہ کر بے تحاشا تھپڑ مارنے شروع کردئیے'یہ ہے اصلی بھارت کا چہرہ! جو 'ویدانتیت‘ کے احیاء کے راستے پر چل نکلا ہے جو دیش میں 'براہمنی نظام ِفکر کے مرے ہوئے فرسودہ سسٹم کا داعی بن چکا ہے، آج کے بھارت نے ثابت کردیا ہے اب دیش میں سیکولر یا غیر سیکولر طرز ِحکمرانی نہیں چل سکتی، اب یہاں اگر کوئی سسٹم چلے گا تواٹھویں صدی کے ایک ہندو مفکر 'شنکراچاریہ' کی جنونی اور متشدد تعلیمات پر مبنی ریاستی دہشت گرد طرزِحکمرانی کا سسٹم ہی چلے گا ،بھارت میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد جدید سائنسی رویوں پر سوچ وبچار کرنا کیسے کیوں یکایک ترک کردی گئی 'ہندوتوا'یا پھر 'سنگھ پریوار' قسم کی متشددانہ جنونی فکرکیوں پروان چڑھنے لگی دیش میں صدیوں سے آباد سکھوں' بدھ مت' عیسائیوں اور بڑی بھارتی اقلیت مسلمانوں کے لئے یہ دیش خوف ووحشت اور دہشت کی علامت کیوں بن گیا؟ یہ جاننے اور سمجھنے کے لئے خاص طور پرعلمی وتاریخی بصیرت رکھنے والوں سے اگر رجوع کیا جائے تو اْن کا کہنا ہے کہ 'گٗو ماتا'کا ذبیحہ اٹھویں صدی میں ہی شکراچاریہ کے نزدیک بھی قابل سزا جرم تصور کیا جاتا تھا تو پھر معلوم ہوا کہ شنکر اچاریہ کی انحراف پسندانہ تحریک کے خلاف بڑا زبردست محاذ اْسی عہد میں قائم تھابی جے پی ہویا آرایس ایس گروہ 'وشواہندوپریشد یا بجرنگ دَل جنونی ہندو تنظیم ہو،اِن سب میں ایک مشترکہ انسانیت دشمن سوچ ہمیشہ سے کارفرما رہی‘ نہرو سے اندراگاندھی اوراب 'نریندرامودی اورامت شا' جیسی سفاکانہ‘ غیر انسانی گھٹیا اور گری ہوئی مکروہ سوچ رکھنے والے سبھی کے سبھی بھارتی حکمران ہمیں ایک ہی صف میں کھڑے اقلیتوں کا بے دریغ لہو بہاتے ہوئے نظرآتے ہیں ،جو اپنے خالص متشددانہ اورجنونی یکطرفہ سرکش رویوں سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیارنہیں ہیں' تازہ ترین واقعہ کو خبر ہی کہہ لیجئے ’بھارتی پارلیمنٹ میں بی جے پی کے رکن اشوک سکسہنہ نے نجانے کس رْو میں کہہ دیا ہے یہ بیان پریس میں جاری کرنے کے پس منظر میں موصوف بھارت کے پسماندہ علاقوں میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں سے غالباً کوئی کمیشن وغیرہ لینے میں جب ناکام ہو ئے تو اشوک نے انسانی فطرت کے بالکل برعکس یہ عجیب وغریب مضحکہ خیز بیان داغ دیا ؟ کہتے ہیں 'اگر لوگ شمسی توانائی کا استعمال کرنے لگیں گے تو'سورج دیوتا' ناراض ہوجائے گا؟ اْن کے اِس مضحکہ خیز بیان کا دیش میں پھیلانا تھا کہ ہندوجنونیوں نے کروڑہاروپے کی لاگت سے قائم ہونے والے شمسی توانائی کے درآمد پینلوں کو تباہ کرنا شروع کردیا ہے‘اِس موقع پر کیوں نہ ہم ایک تفصیلی اورعمیق نظربھارت کی ممتاز شخصیت خوشونت سنگھ کی اْن شہرہ آفاق کتابوں پر ڈال لیں اْنہوں نے جو دیش کے مستقبل کو 'ہندوتوا' کی خوفناک جنونیت سے بچانے کی خاطرلکھیں بھارت میں اپنے آخری ایام مسٹر سنگھ نے انتہائی تکلیف دہ مصائب اور صبرآزمامشکلات میں بسر کیئے یہ خوشونت سنگھ کون تھے؟ آج بھارت میں اِنہیں کوئی جانتا ہے؟جنہوں نے اپنی نوجوانی بھارت کو دیدی تھی1947 میں خشونت سنگھ بھارت کے پہلے محکمہ ِ خارجہ کے مقتدر افسر تھے وہ کینیڈاور لندن میں سفارتی عہدوں پر رہے پیرس اور یونیسکو کی سفارتی عمارتوں میں اْن کی تصاویر اب تک آویزاں ہیں’ دی السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا'نیشنل ہیرالڈ‘ اور ہندوستان ٹائمزکی ادارت کی ذمہ داریاں اْنہوں نے اداکیں'پائے کے صحافی 'معروف کالم نگار‘ محقق‘ ادیب‘ دانشور فکشن نان فکشن ناو ل اْن کے نام ہیں، اپنی کتاب 'بھارت کا خاتمہ' لکھ کرخشونت سنگھ نے بھارتی حکمرانوں کے نام 'چتاونی' کا حق ادا کردیا اپنی کتاب کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں ’ اگر بھارت زندہ رہنا چاہتا ہے تو اْسے اعتدال پسندی ‘روشن خیالی کے ساتھ برداشت اور رواداری کے راستے پر چلنا ہوگا ورنہ بھارت عبرتناک تباہی کا شکار ہوجائے گا‘ اپنی کتاب کے تعارف میں لکھا ’کہ بھارت تباہی اور بربادی کا شکار ہوچکا ہے اب کوئی معجزہ ہی بچائے تو بھارت بچ سکتا ہے اُن کی عمر کے آخری ایام میں 'بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ ہوا ‘ گجرات میں ریاستی حکام کی ناک کے نیچے گودھرا کیمپ کا ِدردناک المیہ رونما ہو ا‘ اْنہوں نے اپنے لہورنگ قلم کی نوک سے ہر ایک ہوش مند بھارتی سے مخاطب ہوکر صاف لفظوں میں یہاں تک کہہ دیا اپنے قلم پر عائد فرض کو پورا کردیا ، ایڈونی ‘ واجپائی ' منوہر جوشی اوراْوما بھارتی سمیت مودی کو بھی جھنجھوڑا کہ' ہوش کے ناخن لے لو' ابھی وقت ہے اپنے ہندوجنونیوں کے بے لگام اندھے گروہوں کوروکو' اْنہیں تاریخ کے کوڑے دانوں میں پھینک دو' اب ایک ہمار سوال ، کہ اقتدار سے چمٹے رہنے کی دوڑمیں دیش کے کم فہموں اور بے شعوروں کی واضح کثیر تعداد کو مذہبی منافرت تشدت پسندی کے کے نام پر نئی دہلی کے اقتدار کی جانب بھاگنے والے کب تک بھارتی عوام کو بیوقوف بناتے رہیں گے؟ اور وہ بھی ذرا دیکھیں بھارت میں کیا ہورہا ہے دنیا کا اتنا بڑا ملک‘ اتنی بڑی آبادی کا ملک‘ اتنے وسیع وعریض جغرافیائی رقبے کا حامل ملک‘ جو خطرناک ایٹمی بلکہ مہلک کیمیکل ہتھیاربھی رکھتا ہے اُس ملک میں سماجی ومعاشرتی نفرت خیزی کس تیزرفتار ی سے پروان چڑھ رہی ہے، بھارتی نیم خواندہ جنونی اشرافیہ کو دنیا کب لگام دے گی جب پانی سرسے اُونچا ہوجائے گا تب؟؟