انڈین آبدوز کا پاکستان کی سمندری پانیوں میں موجود ہونا انٹیلی جنس رپورٹ کی تائید کرتا ہے۔ امریکی بحری بیڑے کی پاکستان کی سمندری حدود کی طرف بڑھنے کی خبریں بھی آئیں۔ پاکستان کی سمندری حدود کے قریب پہنچنے کا مقصد پاکستان پر دباﺅ ڈالنا اور ایٹمی بلیک میل کرنا تھا کہ انڈیا کا پاکستان کے شہروں پر حملہ کے بعد پاکستان کوئی ردعمل کرنے سے باز آئے۔ پاکستان نے امریکہ پر واضح کیا کہ انڈیا اور اسرائیل کی طرف سے پاکستان کی شہروں پر میزائل حملہ کی جوابی کارروائی کی پاکستان نے مکمل منصوبہ بندی کی ہوئی ہے۔ جس میں انڈیا کے ایک درجن سے زیادہ شہروں اور تنصیبات کا نشانہ لیا ہوا ہے۔ پاکستان پرحملہ ہوتے ہی انڈیا اور اسرائیل کے ٹارگٹوں پر میزائل کا بٹن دبا دیا جائے گا۔ اس میں کسی وقفے کی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ کہا گیاکہ یہ روایتی جنگ کرنے کے میزائل ہونگے۔ ایٹمی میزائل نہیں ہونگے مگر امریکہ کو ڈر تھا کہ اشتعال میں آ کر پاکستان ایٹمی میزائل کا بٹن دبا سکتا ہے اور ایسی صورت میں انڈیا میں بڑی بربادی ہو گی اور اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ یوں پاکستان پر امریکہ کی سرپرستی میں انڈیا اور اسرائیل کا مشترکہ حملہ منسوخ ہوا۔
پاکستان کی سول اور عسکری قیادت انڈیا اور اسرائیل کی ہر قسم کی مہم جوئی کے مقابلے کے لیے مستعد ہے مگر امریکی اشتعال انگیزیوں اور ایٹمی بلیک میل کے سدباب کے لیے کچھ کرنا لازمی ہے۔ ہماری قیادت کو چاہئے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اپنی استعداد کا مظاہرہ کریں اور 4500 کلو میٹر سے زیادہ رینج کے ایٹمی میزائلوں کا رینج پر ٹیسٹ کر کے واضح پیغام دیں کہ ڈیگوگارشیا، مڈاغا سکر، انڈیمان، قبرص میں واقع امریکہ، انڈیا اور یورپی ممالک کے اڈوں تک پاکستان کے ایٹمی اور روایتی میزائل مار کر سکتے ہیں اور انہیںتباہ کر سکتے ہیں۔ البتہ امریکی دباﺅ اور ایٹمی بلیک میل کی سدباب کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان ICBM انٹر کانٹیننٹل بلیسٹک میزائل کا رینج پر ٹیسٹ کر کے امریکہ کو واضح پیغام دے کہ اب پاکستان، امریکی ایٹمی بلیک میل میں نہیں آئے گا کیونکہ پاکستان امریکی مہم جوئی کا موثر جواب دینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ انڈیا کو بھی پیغام ملے گا کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ایسا طاقتور کیا ہے کہ کوئی سپرطاقت پاکستان پر دباﺅ ڈال کر انڈیا کا مفاد حاصل نہیں کر سکتا۔
ابھی صورتحال کچھ یوں بن گئی ہے کہ پاکستان کی فضائی حدود کی بندش کی وجہ سے انڈین ائیر لائن کو روزانہ کروڑوں روپوں کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ یہ صورتحال جاری رہی تو انڈیا کی سرکاری اور پرائیویٹ ائیر لائنز بند ہو جائیں گی۔ پاکستان سے تجارت کی بندش سے انڈیا کو سالانہ اربوں ڈالر سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔ افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک سے تجارت کرنے کے لیے براہِ راست زمینی راہداری کی بجائے زمینی ،سمندری، زمینی راستہ استعمال کر کے طویل سفر کر کے کئی ممالک سے گزر کر تجارت کرنے سے انڈیا کے تاجر کو خاطر خواہ منافع نہیں ملتا۔ یہ تمام عوامل مجموعی طور پر انڈیا کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر اوردیگر معاملات میں مذاکرات کر کے پرامن حل کا راستہ اختیار کرے۔ قوم توقع رکھتی ہے کہ پاکستان کی سول و عسکری قیادت، قومی مفاد کو مقدم رکھنے کی حکمت عملی پرمستحکم رہے گی۔ (ختم شد)