تکلیف دہ سچ

Apr 06, 2019

تنویر حسین

کبھی کبھی جب پولیس فورس میں کسی ایسے فرد سے ملاقات ہوتی ہے جو خالق و مالک کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا، حرام کے نام سے کانپ اُٹھتا ہے اور جس کی زبان حکام کی چاپلوسی سے ناآشنا ہے اور جو خدمت خلق کو سب سے بڑی عبادت سمجھتا ہے اور جسے مل کر ہاتھ بے اختیار اُن کے لیے دعائے رحمت کے لیے اُٹھ جاتے ہیں، جنہوں نے اُسے جنا، تربیت دی اور صراطِ مستقیم پر گامزن کر دیا۔ اگر پولیس کا بھرم قائم ہے تو اس کی وجہ ایسے ہی لوگ ہیں۔ طارق کھوسہ کا شمار بھی وطن عزیز کے ایسے ہی قابل فخر سپوتوں میں ہوتا ہے۔ اُن کا جس شجر سے تعلق ہے اس کے تمام پھل پھول ایسے ہی ہیں۔ لگتا ہے کہ مرحوم و مغفور والدین نے اپنی ساری اولاد کو سچ کا علم بلند رکھنے اور ظلم کے سامنے ڈٹ جانے کی گڑھتی ہی دی تھی۔ آج عدلیہ میں سچ کے سفر کی نوید جس شخصیت کی طرف سے دی جا رہی ہے اُس کا تعلق بھی اسی گلستان سے ہے۔
محترم طارق کھوسہ کی تصنیف لطیف INCONVENIENT TRUTHS اگرچہ خود نوشت نہیں لیکن ہر صاحب درد کے لیے خواہ اُس کا تعلق حکمران طبقے سے ہو، یا عوام سے، اس میں رہنمائی اور وطن کی بیماریوں کے علاج کے لیے بڑا سامان موجود ہے۔ اُن ارباب بست و کشاد کے لیے رہنما اور چشم کشا ہے جن کا ایمان ہے کہ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے اور جو خدا فراموش حکمرانوں کے سامنے ’’کھوٹے کوکھوٹا‘‘ کہنے کی جرأت رکھتے ہیں۔ طارق کھوسہ نے اپنی ملازمت کا آغاز 1970ء کے عشرے کے اوائل میں بطور اسسٹنٹ کمشنر لاہور شروع کیا، تب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم وزیراعظم تھے۔ اُنہوں نے سنٹرل سپرئیر سروسز کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1975ء میں پولیس سروس جائن کی۔ 1976ء میں سول سروس اکیڈمی لاہور سے تربیت مکمل کی۔ 1987-88 ء کے دوران اُنہوں نے فُل برائٹ ایکس چینج پروگرام کے تحت ہیوبرٹ ہمفری منتخب ہونے پر سکول آف پبلک آفیسرز یونیورسٹی آف واشنگٹن سیٹل امریکہ میں سٹڈی مکمل کی، 2005ء میں نیشنل ڈیفنس کالج اسلام آباد سے ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک سٹڈیز میں ماسٹر کی ڈگری لی۔
2007ء میں بلوچستان کے انسپکٹر جنرل پولیس مقرر ہوئے، اُن سے پہلے بھی بڑے بڑے قابل لوگ اس صوبے میں آئی جی رہے مگر اُنہوں نے کمال یہ کیا کہ صوبے کے طول و عرض میں پہلی دفعہ پولیس کی رٹ قائم کی۔ یوں ان علاقوںکے رہنے والوں کو پہلی دفعہ پتہ چلا کہ اب وہ آزاد مملکت کے شہری ہیں اور یہاں نوابوں، وڈیروں اور قبائلی سرداروں کے احکام کی بجائے پاکستان کا قانون چلے گا۔ بحیثیت پولیس آفیسر اُن کے کارناموں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ سچ اور انصاف کا پرچم ہمیشہ سربلند رکھا، مقابلے میں ظلم ہمیشہ پسپا رہا۔ 2011ء میں ریٹائر ہوئے ۔ پولیس ریفارم پروگرام (2013) کے شریک بانی ہیں۔2017ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے اُن کی محققانہ تصنیف: THE FALTERING STATE; PAKISTAN,S INTERNAL SECURITY LAND SCAPE شائع کی، زیرِ تبصرہ کتاب بھی آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے ہی شائع کی۔ مقدمہ معروف صحافی اور مصنف زاہد حسین نے لکھا ہے۔ بڑا بھرپور تعارف کرایا ہے۔ 31 ابواب اور 256 صفحات پر مشتمل کتاب کے ہر باب پر تاریخ تحریر درج ہے۔ کتاب کے پہلے باب میں آغاز ہی اس تحریر سے ہوتا ہے۔ ’’بااختیار حکمرانوں سے سخت سوالات پوچھنے کا وقت آ گیا ہے۔ اگر ہم جمہوری ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو شہریوںکو یہ جاننے کا حق ہے کہ ہماری قوم کی حالت میں اخلاقی ، سماجی یا سیاسی طور پر بگاڑ اور بدعنوانی کہاںسے آ گئی۔ ؟(یہ تلخ سوالات، جولائی 2016ء میں سر اُٹھانے لگے تھے جب نواز شریف وزیراعظم تھے۔ ذرائع ابلاغ میں اُنکے اور خاندان کیخلاف خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں) کتاب کے اگلے ابواب مختلف رنگ پیرائے اور اسلوب میں انہی سوالات کا جواب سمجھئے۔ چوتھے باب کا عنوان ہے ’’مقدس گائیں‘‘ لکھتے ہیں ’’میں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں پولیس سروس شروع کی، میری اُن سے ملاقات 1980ء کے اوائل میں ہوئی، میں اُن دنوں کوئٹہ پولیس کا کمانڈر تھا، انہی دنوں ایک عرب شہزادہ شکار کھیلنے بلوچستان آیا تو جنرل ضیاء اُنہیں ملنے آئے۔ کوئٹہ ائیر پورٹ پر اُترے تو وضو کرنے سیدھے وی آئی پی لائونج کے واش روم!! چلے گئے لیکن فوراً ہی واپس پلٹے۔ غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے اور کھڑے کھڑے ائیر پورٹ مینجرکو برطرف کر دیا اُس بے چارے کا گناہ یہ تھا کہ واش روم میں لوٹا نہیں تھا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ’’بدقسمتی سے ہمارے حکمران (خصوصاً 90 ء سے) سیاسی سکور برابر کرنے کیلئے پولیس کا عموماً غلط استعمال کرتے رہے۔‘‘ پولیس کے غلط استعمال کا آنکھوں دیکھا حال بھی کتاب کے مختلف صفحات پر مل جائیگا۔ آمروں کے ریفرنڈم اور بعض جمہوری حکمرانوںکے اتخابات کی کہانی بڑی عبرتناک ہے۔ پاکستان کے ان نام نہاد رکھوالوں اور جمہوریت کے پاسبانوں نے عوام کو آزادانہ حق رائے دہی سے محروم کرنے کیلئے پولیس کو دل کھول کر استعمال کیا۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل (2006) کے بعد اُنہیں بلوچستان پولیس کا سربراہ مقرر کیا گیا، مگر اُنہوں نے حالات کو بے حد عجیب پایا ’’میں اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کر سکا، چنانچہ میں نے عزت سے چھوڑ دینے کو ذلت کی نوکری پر ترجیح دی۔‘‘ یہاں وہ سوال کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ ایسا سوال ہے جو بہتوں کے منہ کا مزہ کر کرا کر دیگا۔ ’’پاکستان طالبان اور دہشتگردوں کے ہاتھوں تو بچ سکتا ہے ۔ کیا یہ اپنی لیڈر شپ کے ہاتھوں بھی بچ پائے گا‘‘ (یہ باب /18 اگست 2018ء سے لگ بھگ پونے دو سال پہلے لکھا گیا) ہم تو اس سے یہ سمجھے ہیں کہ دشمن پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، اسے خدانخواستہ جب بھی نقصان پہنچا، اپنے ’’ہردلعزیز‘‘ سیاسی رہنمائوں کے ہاتھوں ہی پہنچا اورساتھ ہی ذہن بلا ارادہ سقوطِ ڈھاکہ کی طرف منتقل ہو گیا!) اس کتاب کا اردو میں بھی ترجمہ ہونا چاہیے ۔

مزیدخبریں