مجھے زیادہ بات ان کی صحافت پر کرنی چاہئے مگر خود شامی صاحب نے اپنی صحافت، سیاست اور تجارت کو گڈ مڈ کر لیا تھا۔ اس لئے میرا تبصرہ بھی ملا جلا ہو گا۔ صحافت میں شامی صاحب نے بڑا نام اس وقت کمایا جب وہ ایک کالم نگار کے طور پر نوائے وقت کا حصہ بنے۔ ان کی شمولیت حادثاتی تھی۔ اس لئے کہ نذیر ناجی اور عبدالقادر حسن جو نوائے وقت کے دو بڑے کالم نویس تھے، اچانک اس ادارے کو چھوڑ گئے۔ مرشد نظامی کے حکم پر مجھے کسی متبادل کی تلاش تھی اور میں نے شامی صاحب کو قائل کیا کہ وہ اس بار گراں کو سنبھالیں انہوں نے ہچکچاہٹ کا اظہار تو کیا اورا س کی وجہ میں جانتا تھا کہ کبھی کبھار لکھنے اور اچھا لکھنا تو ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا لیکن روزانہ لکھنا اور اچھا لکھنے کے لئے انہیں کچھ اور ہاتھوں کی ضرورت تھی۔ نوائے وقت کے ادارتی بورڈ میں شامل اس وقت کی ٹیم نے ان کا حوصلہ بڑھایا۔ شامی صاحب لکھتے ہوئے جہاں کہیں اٹکتے، کوئی شعر یاد نہ آتا، کوئی بر محل لطیفے کے حاجت محسوس ہوتی یا کوئی تاریخی حوالہ درکار ہوتاتو بابا وقار انبالوی، سلیم تابانی، طلعت قریشی اور حسنین جاوید ان کی مدد کو آتے۔ ویسے میں بھی حاضر تھا وہاں، یوں شامی صاحب نے ایڈیٹری سے باہر نکل کر اپنے لئے کالم نویسی کے میدان میں بھی نمایاں جگہ بنائی۔ یہ جگہ اینکروں کے آنے کے بعد گہنا گئی توشامی صاحب اچھل کر اینکر بھی بن گئے اور سچی بات یہ ہے کہ و ہ مختصر اور بلیغ بات کرتے ہیں اور مخاطب کو لاجواب کر دیتے ہیں اور ٹو دی پوائنٹ بات کرتے ہیں۔ وہ ادھر ادھر خیالی گھوڑے نہیںدوڑاتے بلکہ خیال کو لگام پہنا کر رکھتے ہیں۔ میر امشاہدہ ہے کہ دوران پروگرام اگر میرے جیسا شخص بھی ان کو ایس ایم ایس کے ذریعے لقمہ دینے کی کوشش کرے تو وہ اس کی ستائش کئے بغیر نہیں رہتے۔ شامی صاحب انسان دوست ہیں۔ دوست نواز ہیں۔ ان کے دوست انہیں پیر کا درجہ دیتے ہیں لیکن میرے لئے وہ ایک ہم عصر ہیں اور معاصرانہ چشمک ہمارے درمیان ہمیشہ جاری رہی۔ ایٹمی دھماکہ کرنے اور کارگل کی جنگ پر میری رائے ان سے بالکل متضاد تھی۔ ان فقہی اختلافات کے باوجود ہمارے تعلقات میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ اگر کوئی فرق آیا تو صرف یہ کہ ان کی کلاس بدل گئی ہے۔ مگر صحافتی دائرے میں ہم ایک دوسرے کے ساتھی بھی ہیں اور مد مقابل بھی۔ وہ مجھے اب بھی عزیز از جاں رکھتے ہیں اور ہر ایک کو رکھتے ہیں۔ ان کاتعلق ایک بار جس سے استوار ہو جائے، اسے ٹوٹنے نہیں دیتے۔ انہیںمعلوم تھا کہ نوازشریف کے صلاح کار کے طور پر میرے مرشد مجید نظامی کی ان کے بارے میں کیا رائے ہے۔ دوسری طرف مجھے کبھی کبھی یہ بھی محسوس ہوتا تھا کہ شامی صاحب میرے مرشد نظامی کے مد مقابل رتبہ چاہتے ہیں مگر یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔ یہ اللہ کی دین ہے۔ شامی صاحب نے میرے مرشد سے زندگی بھر کوئی بگاڑ پیدا نہیں کیا ور ان کی وفات کے بعد تو ان کے دل میں میرے مرشد کے لئے اور بھی عزت بڑھ گئی ہے ۔ شامی صاحب سی پی این ای کے صدر بنے تو انہوں نے لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں جناب نظامی کے اعزاز میں ایک بڑا اکٹھ کیا،یہ مرشد نظامی کو خراج تحسین پیش کرنے کا ایک بہانہ تھا۔ اسی اجلاس میںنظامی صاحب نے زرداری کو مرد حر کا خطاب عطا کیا۔ مشرف کے مارشل لا دور میں شامی صاحب نے اپنے اخبار کے دفتر میں میرے مرشد کے اعزاز میں ایک اور اکٹھ کیا ، یہ ذرا مختصر تھا مگر اس میں جناب نظامی نے بڑے بڑے انکشافات کئے کہ وہ مشرف کے کہنے پر مسلم لیگیوں کے اتحاد کے لئے جدہ میں جلاوطن نواز شریف کے پاس آتے جاتے رہے۔ نواز شریف نے مشرف کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ شامی صاحب نے میرے مرشد کا دل جیتنے کے لئے نظریہ پاکستان فائونڈیشن کے جوہر ٹائون کمپلیکس کی تعمیر کے لئے دو بار پانچ پانچ لاکھ کا عطیہ بھی دیا۔ ایک طرف یہ نظریہ اور دوسری طرف نواز شریف کا نظریہ۔ دونوں میں کوئی مطابقت نہیںتھی بلکہ بعد المشرقین تھا۔ شامی صاحب آج بھی جنرل ضیا کے مداح ہیں مگر مشرف کے نقاد۔ یہ بھی نواز شریف کی وجہ سے ہے اور اسی پس منظر میں نااہلی کے بعد شامی صاحب نے نواز شریف کو جی ٹی روڈ کا رخ کرنے کا مشورہ دیا۔ اب یہ پتہ نہیں کہ مجھے کیوں نکالا کا نعرہ بھی انہی کی اختراع تھا مگر اس رویئے نے نواز شریف کو سیاسی طور پر بے حد نقصان پہنچایا۔ نواز شریف اس نظریئے کی وجہ سے اپنی پارٹی میں تقسیم کا ہی باعث نہیں بنے بلکہ شہباز شریف کے ساتھ بھی ان کی دوری واقع ہو گئی۔
مجیب شامی بیک وقت ایک ایٖڈیٹر، ایک کالم نگار ایک ٹی وی اینکر، ایک سیاسی صلاح کار اور کاروبار میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ میں نے ان کے سبھی گوشوں پر ایک اچٹتی نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے اور اس میں کسی بددیانتی یا مبالغے سے کام نہیں لیا۔ شامی صاحب کا ستار ہ اس وقت گردش میں ہے۔ ہر صحافی کا ستارہ گردش میں ہے اور وقت کی ضرورت ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آئیں۔ ان دنوں شاید وہ عمرے پر گئے ہیں۔ وہ اللہ ا ورا س کے رسولؐ کی سرزمین میں ہیں۔ خدا ان پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔
شامی صاحب نے نبی کریمؐ اور خلفائے راشدین کے جو خاکے لکھے، وہ ان کی بخشش کیلئے کافی ہیں۔ ابوالکلام آزاد اور ظفر علی خان بھی ایسی انشا پردازی میں دور درو تک نظر نہیں آتے۔ تاہم ام معبدؓ نے حضورؐ کا جو خاکہ اپنے شوہر کے سامنے بیان کیا تھا، اس کے مقابلے میں سب انشا پرداز ہیچ ہیں۔