روس کوSu-57 اسٹیلتھ طیارے کا منصوبہ پورا ہونے کی امید نہیں

مغربی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے روس کے ففتھ جنریشن سوخوئیSu-57 اسٹیلتھ طیارے کے 2027 سے قبل آپریشنل سروس میں آنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ یہ بات انگریزی ویب سائٹ nationalinterest.org نے بتائی۔تجزیہ کاروں کے مطابق بار بار التوا اور لاگت کا مقررہ بجٹ سے تجاوز کر جانا اس تاخیر کی بنیادی وجوہات ہیں۔ علاوہ ازیں تحقیق سے متعلق مسائل نے بھی اس منصوبے کو تعطل کا شکار کر دیا۔ عسکری صنعتوں سے تعلق رکھنے والے مغربی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال حیران کن نہیں ہے کیوں کہSu-57 سے متعلق پروگرام درحقیقت قابل اطلاق نہیں تھا۔سال 2006 میں روسی صدر ولادی میر پوتین نے ملک میں تمام ایوی ایشن کمپنیوں کو ریاست کی ملکیت ایک ہولڈنگ کمپنی یونائیٹڈ ایئرکرافٹ UAC میں ضم کر دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں شامل کمپنیوں کی تعداد بیس سے زیادہ ہو گئی۔ اس بڑی کمپنی کو مختلف نوعیت کے طیاروں کی تیاری کے سلسلے میں چار مرکزی شعبوں میں تقسیم کر دیا گیا۔مرکزی ڈھانچے میں ضم ہونے کے باوجود UAC کی اکثر کمپنیوں نے کسی حد تک خود مختاری کو برقرار رکھا۔ اس ریاستی کمپنیUAC کے بورڈ میں 14 ڈائریکٹرز تھے۔ ان میں اکثریت روسی صدر کی ساتھی شخصیات تھیں جب کہ تھوڑے لوگ وہ تھے جو عسکری صنعت کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔

روسی میڈیا میں لفاظی پر مشتمل رپورٹوں کے باوجود یہ بات سامنے آئی کہUAC محض ایک کمزور مجموعہ ہے جو طیاروں کی طیاری میں جدت اور ترقی کو جنم دینے پر قادر نہیں۔ اس کا مرکزی سب یہ ہے کہ بورڈ کے اکثر ڈائریکٹرز صرف ہاں میں ہاں ملانے والے تھے۔ وہ نت نئے منصوبوں کو زیر بحث لانے تک خوش رہتے تھے جب کہ مشکل فیصلے کرنے کی قدرت سے محروم تھے۔

اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ UAC گزشتہ دس برسوں کے دوران کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کر سکی۔ جہاں تک سوخویSu-57 طیارے کے منصوبے کی ناکامی کا تعلق ہے تو اس کی بنیادی وجہ قبل از وقت کیا جانے والا ایک فیصلہ تھا۔ جی ہاں وہ فیصلہ یہ تھا کہ کمپنی کے لڑاکا طیاروں کے ڈویژن کے دروازے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے بند کر دیے گئے۔ادھر یوکرین پر روس کے حملے کے بعد ماسکو پر مغربی اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں روسی معیشت کو شدید نقصان پہنچا۔ اس حوالے سےUAC کی جانب سے لچک کا مظاہرہ نہ کیے جانے کے سبب Su-57 طیارے کی تیاری نا ممکن بن گئی۔اس منصوبے کے حوالے سے آخری امید بھارت کی جانب سے ایک منصوبے کی فنڈنگ میں دل چسپی تھی۔ اس کے تحتSu-57 طیارے کو Su-30MKI لڑاکا طیارے کی کلاس میں ایک اسٹیلتھ طیارے میں تبدیل کرنا تھا۔ تاہم پوتین کے عائد کردہ انتظامی ڈھانچوں نے اس تعاون کو بھی سوبتاژ کر دیا۔یقینا Su-57 کی تیاری کے حوالے سے کرملن کی بنیادی دل چسپی یہ تھی کہ امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کی جانب سے تیار کیے جانے والےF-22 Raptor طیارے کے مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو کر پروپیگنڈے کے زیادہ سے زیادہ پوائنٹس بنا لیے جائیں۔
 

ای پیپر دی نیشن