کون جانتا تھا کہ 3اپریل 1928کو شیخوپورہ کے دور دراز قصبہ انگلہ ہل کے متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ تحریک آزادی کا سرفروش مجاہد ہی نہیں بلکہ نئی وجود میں آنے والی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی تعمیر میں ناقابل فراموش کردار ادا کرے گا ۔مجید نظامی اپنے عظیم بھائی کے فکر نقش پا پر ہی گامزن نہیں ہوئے بلکہ تحریک آزادی میں شب و روز جانفشانہ سرگرم ہونے کے باعث قائد ملت سے مجاہد پاکستان کا آفریں نامہ اور شمشیر لینے میں بھی کامیاب ہوئے ۔ آپ ایک مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے ۔ والد گرامی میاں محمد دین صابن کے متوسط کاروبار سے منسلک تھے جبکہ والدہ کا زیادہ وقت گھریلوذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد قرآن پاک کی تلاوت میں گزرتا تھا ۔ ان کی والدہ حسین بی بی بچوں کو خود پڑھاتی تھیں ۔ آپ کی عمر ابھی اڑھائی سال کی تھی کہ والد محترم جہان فانی سے عالم بقا کوچ کر گئے ۔ آپ کی ابتدائی تعلیم سانگلہ ہل میں ہی ہوئی۔ بعد ازاں اپنے رہبر اول و برادر اکبر جناب حمید نظامی کے سایہ شفقت میں لاہور منتقل ہوئے ۔ برادر بزرگ نوجوان مجید کو چارٹر اکائونٹنٹ کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے لہذا تدریس کے لئے ہیلے کالج کا انتخاب ہوا مگر کچھ عرصہ بعد ہی جواں سال مجید کا دل اچاٹ ہوگیا اور انہوں نے خاموشی سے گورنمنٹ کالج لاہور میں تدریس کے مراحل طے کئے اور سیاسات میں ایم اے کیا ۔پھر برادر بزرگ نے اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن روانہ کیا ۔مجید نظامی دوران تعلیم بھی نوائے وقت سے کسی نہ کسی طور منسلک رہے ۔آپ حصول علم کے لئے ابھی ولایت ہی تھے جہاں آغاشورش کاشمیری کا فون موصول ہوا کہ تمہارے برادر اکبر شدید علیل ہیں ۔مجید نظامی بھائی کی بیماری کی اطلاع ملتے ہی سرپٹ وطن لوٹ آئے ۔دونوں بھائیوں میں بڑی محبت کے ساتھ ذہنی فکری ہم آہنگی بھی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔مجید نظامی جب ہسپتال پہنچے تو برادربیمار نے نظر اٹھا کر دیکھا اور بڑے اطمینان کے لہجے میں کہا کہ مجید تم آگے ۔ یہ وہ لمحہ تھا کہ آنکھوں سے آنکھیں ملنے کے عرصے میں جناب حمید نظامی نے وہ تمام فکر ، ارادے ، تمام منصوبے جو ملک خداداد کی فلاح کے لئے ان کے سینے میں پنہاں تھے پل بھر میں نظروں نظروں میں اپنے جواں سال بھائی کے سپرد کر دیے ۔وہ صحافت کا پرچم جو حضرت قائداعظم کے حکم پر حمید نظامی نے تھا ما تھا مسلم لیگ کی ترجمانی قومی افکار کی پاسبانی اور نظریہ پاکستان کی نگہبانی کا وہ پرچم وہ علم وہ عزم سب کچھ مجید نظامی کے سینے میں اتار دیا ، منتقل کر دیا ، منکشف کر دیا ۔حمید نظامی کے انتقال پر ملال کے بعد جواں سال مجید نظامی نے نوائے وقت کی ادارت و اشاعت کا بیڑہ اٹھایا اور آپ کی شب و روز محنت کمال مہارت اور منفرد طرز عمل کے باعث نوائے وقت ایک طرف نظریہ پاکستان کا ترجمان و پاسبان ادارہ بن کر ابھرا تو دوسری جانب ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ڈیلی نیشن ، ہفت روزہ فیملی ، ہفت روزہ ندائے ملت ، ماہنامہ پھول کے ذریعے عوام میں حب الوطنی اور سرفروشی کے جذبات کو عام کیا پھر وہ دن آیا کہ مجید نظامی کی ادارت پچاس سال کے اہم ہدف تک پہنچی تو پوری قوم یک زبان ہو کر پکار اٹھی مرحبا مجید نظامی مرحبا ۔آپ نے اپنے عظیم بھائی سے کیا ہوا ہر قول ہر عہد ہر دور میں وفا کیا ۔ ان کے نظریے و فکر کا خوب دفاع کیا ۔اتنی بڑی کامیابی پر ہر جانب ملک کے طول و عرض میں محفلیں سجائی گئیں ، سیمینار منعقد ہوئے ۔مجید نظامی کی پچا س سالہ عظیم صحافتی کارکردگی پر سپاس نامے اور ٹربیوٹ پیش کئے ۔ ہر سمت مرحبا تحسین کی فضا دکھائی دی ۔ہر شعبہ زندگی کے نمایاں اور سرکرداافراد کے آفرین نامے اخبارات کی زینت بنے ۔
یا د رہے کچھ صاحب نظرو فکر مردم شناس شخصیات ایسی بھی تھیں جنہوں نے مجید نظامی کے عمل صالح اور عہد آفریں شخصیت ہونے کی بشارت روز اول ہی سنا دی تھی ۔یہ بات تب کی ہے جب حمید نظامی کا جنازہ عظیم اسلامی سکالرسید ابوالاعلیٰ مودودی نے پڑھایا تھا جب لوگوںکے سوالوں کے جواب میں مولانا محترم نے بڑے قلبی اعتماد سے کہا تھا کہ جب تک حمید نظامی کے بھائی جناب مجید نظامی زندہ رہیں گے پاکستان میں صحافت و گفتار کی آزادی کی فکر نہیں کرنی چاہیے ۔ یہ انکشاف پچاس سالہ صحافتی کامیابیوں پر ایوان کارکنان پاکستان میںمنعقد ایک پروگرام میں گلوبل سٹڈی امریکہ کے سربراہ ڈاکٹر ایم ایم محمود اعوان نے ایک فکری نشست میں کیا ۔ڈاکٹر ایم ایم محمود اعوان نے مزید کہا کہ قومی معاملات خصوصا مسئلہ کشمیر پر مجید نظامی کا موقف لائق تحسین ہے ۔اس پچاس سالہ دور میں حالات مخدوش سے مخدوش تر رہے ۔افراتفری ، مفاد پرستی اور خود غرضی کے بادل چھائے رہے ۔قومی ادارے بدعملی کے باعث اپنا وقار و اعتبار بھی قائم نہ رکھ سکے ۔ان تمام ظلمتوں ، نفرتوں ، اور پسپایوں کے عالم میں نوائے واقت کا بوڑھا ایڈیٹر مگر جواں ہمت نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا چیئر مین پیری میں بھی جوانوں کے لہجے میں دشمنان دین و وطن کو للکارتے دھاڑتے پچھاڑتے دکھائی دیے ۔ (جاری)
صحافت میں ریاضت کی مثال و معیار
Apr 06, 2020