گذشتہ دو ہفتے سے کورونا وائرس کے خدشات کے پیش نظر ’’ قرنطینہ ‘‘ میں ہوں پورا دن خبروں کی تلاش میں گذر جاتا ہے . انٹر نیٹ نے دور حاضر کے صحافیوں کے لئے بڑی آسانیاں پیدا کر دی ہیں لیپ ٹاپ کے ذریعے ‘’’آن لائن ‘‘ صحافت کا دور ہے۔ پچھلے دو ہفتے سے سورج دیکھا ہے اور رات کو آسمان پر جگمگاتے تارے بس اپنے ریڈنگ روم کو ہی دفتر بنا رکھا ۔ کبھی کبھی یہ سوچ کر کہ جبر کی ’’قید ‘‘ کا یہ دور کتنے روز تک جاری گا وحشت طاری ہو جاتی ہے کورونا وائرس سے بر سر پیکار تمام اداروں کے کارکن خراج تحسین کے مستحق ہیں ۔ سر دست ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں وفاقی دار الحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی میں کوروناوائرس کے کم کیسز ہوئے ہیں راولپنڈی ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے بھی موثر طور پر اپنا حصہ ڈال رہی ہے سڑکوں کی کلورونائزیشن کی جا رہی ہے جنرل سٹورز، بینکوں اور دیگر ضروری مقامات پر شہریوں ک کے درمیان مناسب فاصلہ رکھنے کے لئے نشانات لگانے کا کام بھی راولپنڈی ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ذمہ ہے ۔آر ڈبلیو ایم سی کے مینجنگ ڈائریکٹر اویس منظور تارڑ خود اینٹی کورونا ڈس انفیکشن آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں ۔ مسلم لیگ(ن) نے قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کی کورونا وائرس کے حوالے سے قائم کردہ 23رکنی پالیمانی کمیٹی اجلاس میں اس وباء کے تناظر میں 6 مطالبات پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے اگر حکومت نے پی ایم ایل این کی طرف سے پیش کردہ مطالبات کو تسلیم کرلئے تو پی ایم ایل این پارلیمانی کمیٹی میں اپنی شمولیت برقرار رکھے گی بصورت دیگر مسلم لیگ (ن) اپنے آئندہ لائحہ عمل بارے میں فیصلہ کر ے گی۔ پی ایم ایل این کے پارلیمانی ایڈوائزری بورڈ نے میاں شہباز شریف کی مشاورت سے 6نکاتی مطالبات کو حتمی شکل دی ہے پی ایم ایل این کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی کے رکن خواجہ آصف اجلاس میں 6مطالبات پیش کریں گے ذرائع کے مطابق حکومت سے مطالبہ کیا جائے گا کہ کورونا پر پارلیمانی کمیٹی کو پارلیمانی مانیٹرنگ کمیٹی کا درجہ دے دیا جائے جن ہسپتاقلوں آئوٹ ڈور پیشنٹ (او پی ڈی) بند کی گئی ہیں انہیں فی الفور بحال کر دیا جا ئے ۔ کورونا ریلیف فنڈ کے سلسلے میں وفاق چاروں صوبائی حکومتوں ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو آن بورڈ لے اس سلسلے میں میں ان کی ضوریات کو پیش نظر رکھ کر امداد فرہم کرنی چاہیے ، ٹائیگرز فورس فی الفور ختم کر کے ریلیف کا تمام عوام کے منتخب نمائندوں کی وساطت سے تقسیم کیا جائے بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کے ذریعے مستحقین تک امداد پہنچائی اسلام ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق ہسپتالوں کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پی ایم ڈی سی کو فی الفور بحال کیا جا ئے ۔ٹیلی ویژن کے پاس بھی کورونا وائرس کے سوا کوئی خبر نہیں ہر کوئی اپنے اپنے محاذپر
کورونا سے لڑ رہا ہے پوری قوم موجودہ صورت حال میں فکر مند ہے لیکن قومی سطح پر صورت حال مختلف نظر آتی ہے حکومت نے کئی محاذ کھول رکھے ہیں ایک طرف حکومت جہاں کورونا وائرس کے خاتمہ کے لئے اقدامات کر رہی ہے وہاں اس نے سیاسی محاذ پر اپنے مخالفین سے برسر پیکار ہے ایسا دکھائی دیتا ہے حکومت تنہا وائرس کو شکست دینا چاہتی ہے چونکہ حکومت تمام اقدامات قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں کر رہی ہے جس میں چاروں صوبوں ، آزاد جموں وکشمیر اور گلگت و بلتستان کو نمائندگی تو حاصل ہے لیکن اپوزیشن کو قابل در خور اعتنا نہ سمجھنے کی وجہ سے وہ حکومت کے ہر اقدام اور فیصلے کی مخالفت کر رہی ہے اس وجہ سے حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کو عوامی سطح پر پذیرائی حاصل نہیں ہو پا رہی عوام حکومت کے ہر کار خیر کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی محاذ گرم ہے دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے کوشاں ہیں ۔سیاسی جنگ و جدل کے ماحول میں ’’طبلچی ‘‘ بھی اپنا حصہ ڈالنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کے مطالبہ پر ’’لاک ڈائون ‘‘ تو نہ کیا لیکن قومی سلامتی کے اداروں کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ایک طرف وزیر اعظم اس بات پر مصر ہیں کہ مکمل لاک ڈائون نہیں لیکن عملاً صورت حال مختلف ہے اسے طرح وزیر اعظم نے دو تین روز قبل کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے اپنی ٹائیگر فورس بنانے کے اعلان کیا تو اپوزیشن نے اس کے قیام کی مخالفت کر دی اپوزیشن کی مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی اپنی جگہ لیکن ٹائیگرفورس کی مخالفت میں وزن پایا جاتا ہے اپوزیشن کا یہ موقف ہے کہ حکومت اپنے پارٹی کارکنوں پر مشتمل ’’ٹائیگر فورس ‘‘ بنانا چاہتی ہے اس طرح حکومت سرکاری خزانے سے کورونا وائرس کے متاثرین کی امداد کا ڈرامہ رچا کر سیاسی مقاصد حاصل کرے گی ابھی فورس بنی نہیں لیکن بلی تھیلے سے نکل آئی ۔ وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں ٹائیگرز فورس کے سلسلے میں کھل کر اپنے دل کی بات کہہ دی انہوں نے تحریک انصاف کے منتخب ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سے کہا ہے کہ ’’آپ کی خوش قسمتی ہے کہ آپ حکومت میں ہیں، حکومت کی ریلیف کی ساری کوششیں آپ کے ذریعے ہوں گی اور وہ سب آپ کے کھاتے میں جائیں گی۔ جن لوگوں نے ایم این اے اور ایم پی اے کا الیکشن لڑا ہے سب نے اکٹھے ریلیف کی کوشش کرنی ہے۔کورونا ریلیف زبردست موقع ہے کہ آپ ہمیشہ کیلئے اپنے حلقے محفوظ کرلیں گے‘‘اب تک سرکاری طور پر جاری ہونے والی تعداد 6لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے ممکن ہے رجسٹریشن کرانے کی آخری تاریخ تک سرکاری تعدا د10 لاکھ سے اوپر تجاوز کر جائے لیکن ’’ٹائیگرز ‘‘ کی اصل تعدا د کا علم اس وقت لگایا جاسکے گا جب یہ ’’شیر‘‘ میدان میں اتریں گے کہا تو جا رہا ہے کورونا ٹائیگرز کی رجسٹریشن آن لائن کی جا رہی ہے لیکن عملاًً صورت حال مختلف ہے ۔ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی فراہم کردہ فہرستوں پر ’’ٹائیگر فورس ‘‘ کا ڈھانچہ کھڑا جا رہا ہے ۔ تحریک انصاف کے کارکنوں پر مشتمل ٹائیگر فورس کے ذریعے امدادی کام کی تقسیم دو دھاری تلوار کی مانند ہے کیونکہ جہاں بھی بروقت امداد تقسیم نہیں ہوئی وہاں سے احتجاج کی آواز بلند ہو گی بلکہ بعض مقامات پر ہجوم کی جانب سے امداد فراہم کرنے والی ٹیموں پر حملے ہو چکے ہیں وزیر اعظم عمران خان نے جو بھی مشکل وقت میں عوام کے ساتھ کھڑا ہوگا قوم اس کے ساتھ کھڑی ہوگی انہوں نے برملا یہ بات کہی ہے کہ ’’ اندازہ نہیں لگا یا جا سکتا کہ کورونا کب ختم ہوگا اور پاکستان میں کتنا پھیلتا ہے اس کا ہمیں پتا نہیں ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں اپوزیشن کو رگیدا ہے اور کہا ہے کہ ’’ جو مال بناتا ہے وہ سماجی بہبود کا کام نہیں کرسکتا اورجو حلقے کے لوگوں کے ساتھ جڑجاتے ہیں لوگ ان کے ساتھ جڑجاتے ہیں، اپنے وزراء اورایم این ایز کو کہنا چاہتا ہوں کہ بڑا مشکل وقت ہے، ایسے مشکل وقت میں کئی لوگ ابھرکرسامنے آتے ہیں اورکئی ختم ہوجاتے ہیں۔‘‘پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی ترجمان مریم اورنگزیب نے وزیراعظم عمران خان کے بیان پر فوری طور پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وزیر اعظم نے ٹا ئیگرفورس سیاسی فائدے کے لئے بنانے کا اعتراف کرلیا ہے ،قوم کورونا کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے جب کہ عمران خان سیاسی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کے نام پر 32 سال سیاست کی۔ دل میں اللہ کا خوف رکھنے والے نوٹ اور ووٹ کے ذریعے سوشل ورک کی قیمت وصول نہیں کرتے،عمران خان جن پر فلاحی کام نہ کرنے کا الزام عائدکر رہے ہیں انھوں نے فلاحی کام کرتے دوسرے ہاتھ کو پتا نہیں لگنے دیا ۔ وفاقی حکومت کی طرف سے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے مرتب کردہ قومی ایکشن پلان کی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 25 اپریل تک کرونا کیسز کی ممکنہ تعداد 50 ہزار تک پہنچنے کا خدشہ ہے،جن میں 7 ہزار کیسز سنگین نوعیت ، اڑھائی ہزار کے قریب کیسز تشویش ناک جبکہ باقی ماندہ 41 ہزار معمولی نوعیت کے کیسز ہوسکتے ہیں،25 اپریل تک کورونا کے کنفرم کیسز کی تعداد یورپ سے کم ہوگی، جبکہ 25 اپریل تک وائرس کی ٹیسٹنگ سہولت میں اضافہ کیا جائے گا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کورونا وائرس میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہو گا
پوری دنیا میں 12لاکھ سے زائد افراد کورونا وائرس میںمبتلا ہو چکے ہیں امریکہ ،برطانیہ ، جرمنی ،سپین ،اٹلی اور دیگر یورپی ممالک میں خطرناک حد تک شرح اموات زیادہ ہے تاہم پاکستان کی صورت حال یورپی ممالک کی طرح خطرناک نہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان میں بھی دن بدن کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہو رہا بہر حال کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے بار ے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی۔ حکومت پاکستان نے بھی کورونا
وائرس کے پیش نظر جزوی لاک ڈائون کے تحت عائد کی گئی پابندیوں میں 14اپریل 2020ء تک توسیع کر دی ہے ان پابندیوں کے جاری رکھنے یا نرم کرنے کے بارے میں 14اپریل2020ء کو فیصلہ کیا جائے گا ۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وائرس بارے میں پاکستانیوں کی قوت مدافعت زیادہ ہونے کے نظریہ کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور اس بات زوردیا ہے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کیا جائے لیکن یہ دیکھنے میں آئی ہے ۔ پاکستان میں جہاں بیشتر لوگ حکومت کی ہدایات کو نظر انداز کر رہے ہیں وہاں حکومتی سطح پر کی جانے کوتاہیوں سے بھی کورونا وائرس تیزی سے پھیلا ہے اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ’’ بیرون ملک سے آنے والوں کی وجہ سے پاکستان میں کورونا وائرس آیا ہے ۔ ایران سے واپس آنے والے پاکستانی زائرین اور تبلیغی اجتماع کے مبلغین کے برقت ٹیسٹ نہ ہونے سے ملک بھر میں کورونا وائرس تیزی سے پھیلا پاکستان میں مشتبہ کیسزکی تعداد20ہزار سے زائد ہے 10ہزار سے زائد لوگ قرنطینہ میں ہیں ۔پاکستان میں کورونا ٹیسٹ کی سہولیات کی کمی کی وجہ سے تاحال کورونا کے مریضوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہو سکا شاید اس وجہ سے ہمیں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بھی کم نظر آرہی ہے حکومت پاکستان نے بیرون ملک پھنسے دو ہزارپاکستانیوں کو واپس لانے کے لئے 11 اپریل2020ء تک 17 پرواز کی اجازت بھی دے دی ہے ’’ پرائم منسٹر کورونا ریلیف فنڈ یکم اپریل2020ء سے آپریشنل ہو گیا ہے اس کے ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں نے اپنے الگ الگ ریلیف اکائونٹس کھلوا دئیے ہیں اس سے انداز ہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں ایککار خیر میں بھی کس حد تک بد اعتمادی پائی جاتی ہے ۔کوروانا وائرس کے مریضوں کی تلاش کے دوران پولیس نے اپنے اختیارات کا تجاوز کیا ہے پولیس گردی نے حکومت کے لئے شرمندگی کا ساماں پیدا کیا پنجاب میں ’’تبلیغی جماعت ‘‘ کے مبلغین کو ہتھکڑیاں لگانے پر سیاسی اور دینی حلقوں کی جانب سے شدید رد عمل کا اظہا رفطری امر ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہی، پی ایم ایل این کے صدر میاں شہباز شریف سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ محمد ظفر الحق ، جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سیکریٹری اطلاعات حافظ حسین احمد سمیت دیگر رہنمائوں نے بھی پولیس کی جانب سے کورونا وائرس کے تناظر میں تبلیغی جماعت کے مبلغین کے ساتھ کی گئی ’’پولیس گردی‘‘ پر شدید ناراضی کا اظہا رکیا ہے اس سلسلے میںپارلیمنٹ ہائوس کی مسجد کے خطیب و ممتاز عالم دین احمد الرحمن نے بھی ہماری توجہ تبلیغی جماعت کے مبلغین کے ساتھ ہونیوالی زیادتی کی طرف مبذول کرائی ہے اور کہا ہے کہ کورونا وائرس کی آڑ میں تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے یہ کھیل اب ختم ہو جا نی چاہیے ۔ حکومت اور اپوزیشن کو کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے ہر توجہ دینی چاہیے۔
کورونا وائرس کے حکومتی اقدامات اور پوزیشن
Apr 06, 2020