حزب اختلاف جمہوری نظام کا جزو لاینفک ہے۔ اس کے بغیر جمہوریت کی گاڑی چل نہیں سکتی! کسی نہ کسی حادثے کا امکان ہر وقت رہتا ہے۔ ان چند الفاظ میں اس نے اظہار رائے کی اہمیت کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ بین السطور یہ بھی واضح کردیا کہ اس سے کسی طور مفر نہیں!بدقسمتی سے تہتر سال گزرنے کے بعد بھی ہم اس کی اساس اور روح کو سمجھ نہیں پائے۔ ہنوز ہم اس کے طالب علم ہیں۔ وہ بھی ایسے جس کا ذکر مرزا نوشہ نے کیا تھا
لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہم نے اس کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ ہمسایہ ملک میں آئین بن رہا تھا جمہوریت جڑیں پکڑ رہی تھی بے لوث سیاسی قیادت روایات قائم کررہی تھی۔ ہم نے ان سے تو کوئی سبق نہ سیکھا لیکن ان کے ایک سپوت چانکیہ کی ارتھ شاستر کو گھول کر پی لیا۔ اسکے ہرغیر اخلاقی سبق کو حرزِ جاں بنا لیا۔ یہ سلسلہ غلام محمد گورنر جنرل سے شروع ہوا جو آج تک کسی نہ کسی رنگ میں چل رہا ہے۔ امانت، دیانت، راستی، اخلاق‘ مروت وہ فرسودہ اصطلاحیں ہیں جن کا اس اقلیم میں عمل دخل نہیں ہے۔ ایوب خان اپنی کتاب ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں لکھتا ہے، اس نے اپنے دوست جج سے پوچھا ’’آپ دن کیسے گزارتے ہیں؟‘‘ بولا، ’’میں عدالت میں صبح سے لے کر شام جھوٹ سنتا ہوں پھر خس و خاشاک کے اس ڈھیر میں سے سچ کے موتی تلاش کرتا ہوں۔‘‘ ظاہر ہے جس قسم کی قوم ہوگی وہی روش اور طرزِفکر حکمرانوں کی ہوگی۔ کہتے ہیں بعض لوگ مجبوراً جھوٹ بولتے ہیں بعض ضرورتاً یا مصلحتاً کذب بیانی سے کام لیتے ہیں اور وہ حیرت دروغِ مصلحت آمیز پر! ہمارے سیاست دان عادتاً دروغ گوئی کرتے ہیں۔جس ہاتھ کو وہ بڑی گرمجوشی کیساتھ الیکشن سے پہلے ملاتا ہے، اسی کو اقتدار ملنے کے بعد بڑی سختی سے جھٹک دیتا ہے۔ہمارا شروع سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ ہر ہارنے والا دھاندلی کا الزام لگاتا ہے۔ وہ آسانی سے یہ بات فراموش کردیتا ہے کہ اس قسم کے الزامات اس پر بھی قبل ازیں لگ چکے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کوشش ہر کوئی کرتا ہے کسی کو موقع مل جاتا ہے۔ کسی کو نہیں ملتا۔ جبھی تو شیکپیئر نے کہا تھا:
Opportunity thou falt is great
دس اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ حکمران آئے نہیں لائے گئے ہیں۔
بالفرض یہ الزام درست ہے تو ان سے بصد ادب پوچھا جاسکتا ہے۔ آپ کو کون لایا تھا؟ بقول شیخ رشید، سارے گیٹ نمبر 4 کی پیداوار ہیں۔ گو جناب شیخ کا فرمایا ہوا ہر وقت سند نہیں ہوتا لیکن اس بیان کی صداقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ Seeing is believing (عیاں راچہ بیاں)۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہی الزام موجودہ حکمرانوں نے ن لیگ پر لگایا تھا۔ پینتیس پنکچر بیلٹ پیپرز کی چوری، دھونس دھاندلی وغیرہ ۔حکمرانوں کا مؤقف یہ ہے کہ عوام نے کرپٹ عناصر کو مسترد کردیا ہے اور انہیں مینڈیٹ اس لیے ملا ہے کہ وہ ان کی چوری پکڑیں اور قوم کا لوٹا ہوا پیسہ خزانے میں جمع کرائیں۔ ویسے بھی اِسے بھان متی کا کنبہ اور غیر فطری اتحاد قرار دیتے ہیں۔ آیئے ان دو الزامات کا بنظرِ غائر جائزہ لیتے ہیں ۔ ایک عام آدمی کرپشن کو ان معنوں میں نہیں لیتا جو حکومت کا خیال ہے اسے اس بات سے غرض نہیں ہے کہ کون کتنی کمیشن یا کک بیکس لے گیا ہے۔ میگا کرپشن کیا ہوتی ہے؟ اس کے نزدیک تو پولس کا وہ سپاہی کرپٹ ہے جو اسے چند گالیاں دے کر اس کی ریڑھی سے امرود یا ناشپاتی مفت اٹھا لیتا ہے۔ کمیٹی کا وہ اہلکار جو تھڑا ٹیکس کی آڑ میں اس سے یومیہ وصول کرتا ہے یا وہ پٹواری جس نے فرد دینے کے دام پانچ گنا بڑھا دیئے ہیں۔ آج بھی بلا روک ٹوک یہی سلسلہ چل رہا ہے۔ لوگوں نے خان کو ووٹ اس لیے دیا تھا کہ وہ غربت کا خاتمہ کرے گا، مہنگائی کے جن کو واپس بوتل میں بند کردے گا۔ کیا ایسا ہوپایا ہے؟ یہی سوال اگلے الیکشن میں پوچھا جائے گا۔ حکومت کو ’’کوئی پروا نہیں حلوہ پکائو‘‘ والی کیفیت سے باہر نکلنا ہوگا۔ اپنی تمام تر توانائیاں حزبِ مخالف کو لتاڑنے پر لگانے سے کام نہیں چلے گا۔ تمام تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ حکومت اتنی توجہ عوامی مسائل کو حل کرنے پر دیتی تو شاید پی ڈی ایم بنانے کی نوبت نہ آتی۔ غیرفطری اتحاد سے کیا مراد ہے؟ مخالفین کا One item Agenda ہے۔ اس حکومت کو گرانا ہے اس کے gd'وہ کوشاں ہیں۔ دراصل دو چیزیں کسی فرد یا گروہ کو ایک پلیٹ فارم پر لاتی ہیں۔
Common interest or common enemy
ان سب کا ٹارگٹ عمران خان ہے اس کے خلاف یہ مل کر جدوجہد کررہے ہیں۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ان کا ’’مینی فیسٹو‘‘ ایک ہے۔ ان سب نے فیصلہ کیا ہے کہ مقصد کے حصول کے بعد یہ اپنے اپنے نظریات کے مطابق الیکشن لڑیں گے۔اس اتحاد میں دو پارٹیوں کو خصوصی اہمیت حاصل تھی، ن لیگ اور پیپلزپارٹی ۔ مولانا کی اہمیت اس اعتبار سے ہے کہ کسی بھی ایجی ٹیشن یا مارچ میں افرادی قوت وہی مہیا کرسکتے ہیں۔ ان کی پارٹی کے جانثار Disciplined committed ہیں۔ گویا پی ڈی ایم کا بازوئے شمشیر زن مولانا ہیں۔ روزِ اول سے یہی یہ عیاں تھا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی دوستی روایتی گجر اور سنار کی سی ہے۔ دونوں اس تاک میں تھیں کہ ہمہ مقتدر قوتیں کسی کے سر پر ’’دستِ شفقت‘‘ رکھتیں ہیں۔ ن لیگ ابتدائی کوشش اور کاوش کے بعد اس قدر آگے بڑھ چکی ہے کہ معروضی حالات میں اس کا پیچھے ہٹنا تو درکنار پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی محال ہے۔ زرداری کا سیاسی فلسفہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی نازک مرحلوں پر کئی موڑ کاٹ چکا ہے۔ وہ اپنے بیان ’’معاہدے کوئی صحیفے نہیں ہوتے‘‘ پر ہنوز قائم ہے خان کو بھی باور کرایا گیا ہے کہ سیاست میں جیمز بانڈ کی طرح چومکھی نہیں کھیلی جاسکتی۔ خان انگریزی سکولوں کا پڑھا ہوا ہے۔ اگر مکتب میں درس لیتا تو اس کو اس مالی کی کہانی ازبر ہوتی جس کے باغ کو چار دوستوں نے اجاڑ دیا تھا۔ حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے اس نے ایک ایک کرکے سب کو رسی سے باندھ دیا تھا۔ تمام سیاسی اشاریے اس امر کی غمازی کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا اب اتحاد میں رہنا مشکل ہے۔ ان کا استعفے نہ دینے کا مؤقف تو کافی حد تک درست تھا۔ بالفرض استعفوں سے حکومتیں گرنے لگیں تو پھر کوئی حکومت بھی مستحکم نہیں ہو سکتی۔ کل کلاں الیکشن کے بعد تحریک انصاف ہار جاتی ہے تو وہ بھی شکست خوردہ پارٹیوں کے ساتھ مل کر ایسے ہتھکنڈے اختیار کر سکتی ہے۔ مہنگائی کے ستائے ہوئے بے روزگار لوگ چیونٹیوں کی طرح جی ٹی روڈ پر نکل آئیں گے۔ سب سے بڑا مسئلہ پیپلز پارٹی سندھ میں کھڑا کرے گی۔ بالفرض کراچی پورٹ کا گھیرائو ہو جائے اور مرکزی شاہراہیں بند کر دی جائیں تو حکومت چلانا مشکل ہو جائے گا۔ لاٹھی گولی کی سرکار ہمہ مقتدر قوتوں کی حمایت بھی ھو دے گی۔ اس صورت میں اسمبلیوں سے اخراج small ثابت ہو گی۔
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے… پیپلز پارٹی کی روش سے اتحاد کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے ۔ گو تحریک وقتی طور پر رُک گئی ہے لیکن ختم نہیں ہوئی۔ ہو بھی نہیں سکتی! جب تک مہنگائی ختم نہیں ہو گی (جس کے بادی النظر میں دور دور تک آثار نظر نہیں آتے) لوگوں کو روزگار نہیںملے گا۔ کررونا کی وبا ختم نہیں ہو گی۔ جس رفتار سے ویکسین لگ رہی ہے اس سے تو 22 کروڑ کی آبادی کو محفوظ بناتے بناتے برسوں بیت جائیں گے اس وقت تک حکومت small پر رہے گی۔ محض آنکھیں بند کرنے سے خطرہ کم نہیں ہوتا۔ ابھی یا کبھی نہیں والی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔