جس دیس کے سادہ لوح انساں

شاید ابھی ایسے الفاظ ایجاد نہیں ہوئے جو احساس کو بیاں کر سکیں۔ احساس کی دنیا الفاظ کی دنیا سے بہت آگے ہے ۔ زندگی میں انسان غلطیاں کر کے سیکھتا ہے ۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ پرانے لوگ سمجھداری کے ساتھ تعلق نبھاتے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے لوگ پریکٹیکل ہو گئے تعلق سے فائدے نکالنے لگے اور بالکل پروفیشنل ہو گئے ہیں تعلق رکھتے ہی فائدے کیلئے ہیں ۔ ویسے میرا تجربہ ہے کہ درختوں کے پتے ہوں یا خونی رشتے حالات جب برے ہوں تو احساس کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے ۔ لوگوں کے پروفیشنل ہونے کے بعد اندازِ زندگی بالکل تبدیل ہوگئے ہیں جدھر دیکھیں منافقت ہی منافقت ہے ۔ ہمارے نام نہاد لیڈر انِ کرام جنھیں قوم اپنا مسیحا سمجھتی ہے وہ سارے تقریباً بے نقاب ہو چکے ہیں اور قوم انھیں سمجھ چکی ہے شاید کہ :
ہم ایک عمر سے واقف ہیں اب نہ سمجھائو
کہ لُطف کیا ہے میرے مہرباں ستم کیا ہے 
آج پاکستان کی اپوزیشن حصولِ اقتدار کیلئے اندھا دھند ایک دوسرے کو بیوقوف بنانے میں مصروف ہے۔ کبھی حکومت کی نا اہلی اور غلطیوں کا فائدہ اپوزیشن اٹھاتی ہے اور کبھی اپوزیشن کی ایک دوسرے سے منافقت کا فائدہ حکومت اٹھاتی ہے ۔ قوم یہ سن سن کر تنگ آ چکی ہے کہ ایک لیڈر جیل سے کیسے گیا اور اب کون جائے گا کیسے جائے گا۔ کہاں کون کس کیلئے کام کر رہا ہے۔ آج بلاول نے یہ کہہ دیا ، مریم نے یہ جواب دے دیا، زرداری صاحب اسٹیبلشمنٹ سے مل گئے ، شہباز اور حمزہ اپنی پلاننگ کر رہے ہیں ، چوہدری پنجاب میں اہم ہو گئے ۔ اب پنجاب میںعدم اعتماد آئیگا، چیف منسٹر کوئی اور ہوگا۔ کچھ خوفِ خدا ہے کسی کے اندر، جہنم میں جائیں یہ سازشیں یہ بغاوتیں ۔ قوم انکے منہ کی طرف دیکھتی ہے کہ کوئی ہماری بات بھی کریگا۔مگر پہلے ـ"ایہناں دیاں چکر بازیاں مُکن تے عوام دی واری آوے نا"
ہم نے بزرگوں سے سنا ہے کہ کسی بڑے چوہدری کے گھر چوری ہو گئی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ سارے گائوں کو چادر کے اوپر قرآن کریم رکھ کر اسکے نیچے سے گزارا جائیگا اور پھر جو چور ہو گا وہ مر جائیگا۔ سارا گائوں چادر کے نیچے سے گزر گیا اور کسی کو کچھ نہیں ہوا ۔ پتہ ہے کس لیے ؟کیوں کہ چوروں نے تو چادر پکڑی ہوئی تھی۔ 
روز ایک نیا تماشہ ہوتا ہے کبھی احتساب کا ، کبھی عدالتوں میںپیشیوں کا، مگر اللہ کے فضل سے مال مقدمہ نظر نہیں آتا ۔ سارے ملک کی دولت لوٹ کر قوم کو مقروض کر دیا ہے ۔ ملک کو گروی رکھ کر کوئی نہیں شرماتا۔ سمندر پی کر بھی انکے ہونٹ خشک ہیں ۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ چوری اگر انہوں نے نہیں کی تو اس بھوک سے نڈھال قوم نے لُوٹا ہے کیا پاکستان کو ؟لوگ دال روٹی کو ترس گئے ہیں ۔ مہنگائی نے لوگوں کو بدحال کر دیا ہے ۔ روز یہی سننے کو ملتا ہے ’’میرے پاکستانیو گھبرانا نہیں ہے‘‘ لوگ پرائم منسٹر صاحب کو ٹیلیفون پر یہ کہہ رہے ہیں کہ کچھ اور نہیں تو ہمیں گھبرانے کی اجازت ہی دے دیں ۔ آخر یہ کب تک چلے گا۔ میں نے زندگی سے سیکھا ہے کہ کبھی کسی چیز کو خوامخواہ ایشو نہ بننے دیں ۔ حکومت جہاں دیدہ لوگوں کی ٹیم بنائے اور انڈیا سے چینی پیاز لینے کا فیصلہ کروا کر پھر عوامی احتجاج کے خوف سے فیصلے کو خودہی بدل دے ۔ کشمیریوں کے خون میں بھیگی یہ چینی اگر ہندوستان سے منگوا لی جاتی توپھر تمھارے ساتھ وہ ہونا تھا جو مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں PDMبھی نہیں کر سکی۔ایسے غلط فیصلے جو لیڈر شپ اور ملک کو برباد کر دیں ان سے بالکل اجتناب کرنا چاہیے ۔ اور سٹیٹ بینک کے مسئلے کو آسان نہ سمجھیں ۔ ادھر اُدھر سے اکٹھے کئے ہوئے عینک والے جن اس ملک و قوم کو بر باد کر دینگے ۔ رمضان المبارک آ رہا ہے ۔ مافیاز ایکٹو ہو گئے ہیں اس قوم کا خون کچھ ہمارے لیڈرز نے چوس لیا ہے اور رہی سہی کسر یہ مافیاز نکالیں گے۔ مگر انھیں آہنی ہاتھوں سے نہ روکا گیا تو پھر شاید حکومت بڑی مزاحمت کیلئے تیار رہے ۔ غریبوں کوجینے کا حق دے ہی دیں اور میڈیا پر رات دن کا تماشہ بند ہونا چاہیے ۔ کیونکہ قوم کو کسی کے آنے جانے سے اور کون کہاں مرتا ہے کس کو کیا بیماری ہے غرض نہیں ہے۔ انھیں دو وقت کی روٹی چاہیے جناب عالیٰ! اور اگر مہنگائی سے تنگ لوگ ڈنڈے لے کر اور Leader Lessہو کر سڑکوں پر آگئے تو انھیں روک کر دکھا دینا۔ ابھی وقت ہے انتہائی تیزی سے گزر رہا ہے ۔ اچھی اصلاحات کے ذریعے اسے عوام کیلئے جینے کا حق دے کر خوشگوار بنا دیں اور اپنی آئینی ذمہ داری کو بھی پورا کر دیں ۔پاکستان بہت خوبصورت ملک ہے انتہائی ٹیلنٹڈ قوم ہے ۔ ففتھ جنریشن وار کامیاب طریقے سے جاری ہے ۔ قوم کے اندر نا اتفاقی ہمیں بر باد کر دیگی۔ اب جو کچھ کرنا ہے وہ کر ہی لیں ۔ یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں اور آج تک کے حالات دیکھ کر مجھے کہنے کی اجازت دیں کہ ’’پارٹیوں سے بالا تر ہو کر ملک بچالیں پاکستانیو‘‘  اور سُنو !
جس دیس کے سادہ لوح انساں
 وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں 
اس دیس کے ہر اک لیڈر پر 
سوال اُٹھانا لازم ہے 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن