ـ’’بھیگتی پلکیں‘‘ اور ’’زلفِ دراز‘‘ کا عکس ’’استعارہ‘‘ بن کر منظر عام پر ابھرا۔ جھلمل کرتا یہ عکس ’’فردیات فرحت‘‘ سے ہوتا ہوا ’’معنی کی محبت میں‘‘ اتر گیا لیکن اِدھر ڈُوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈُوبے اِدھر نکلے کا مصداق یہ طویل سفر ’’یہ عشق‘‘ کہلایا۔ یہ عشق ’’صریر نو‘‘ ہے،’’ خرام خامہ‘‘ ہے اور کہیں ’’سفیر نقدونظر‘‘ ہے۔ عشق پینترا بدلتا رہا مگر عشق، عشق ہی رہا۔ کوئی اس کی ہیئت بدل نہ سکا۔ زندگی اسے مات نہ دے سکی۔ عشق امر ہو گیا۔ تبھی ڈاکٹر فرحت عباس نے کہا: ’’زندگی ہار جائے گی لیکن، ہارنے کا نہیں مرا یہ عشق‘‘۔ امر ہو جانے والوں کا عشق میسر آ جائے تو ایسے عشق کو بھی حیاتِ جاوید حاصل ہو جاتی ہے۔ اسے غیر فانی قرار دے دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر فرحت عباس کو امر ہو جانے والوں کا عشق نصیب ہوا تو ان کے ظاہر و باطن سے ’’غیر فانی ہے، غیر فانی ہے‘‘ کی بازگشت پیہم سنائی دینے لگی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ہر کس و ناکس عشق پہ ایمان لے آیا۔ ڈاکٹر فرحت عباس کے عشق کی کڑیاں کربلا سے جا ملتی ہیں:
؎خاک کوئی کرے گا خاک اسے
نسبتِ خاکِ کربلا مرا عشق
کربلا سے جس کا تعلق ہو جائے، وہ کربلائی ہے۔ جو آج بھی تپتی ریت کا سینک، سوکھے ہونٹوں کی پیاس، معصوم علی اصغر کی رگوں سے بہتے خون کی شدت و حدت اور خیمے کی آہ و زاری کو محسوس کرے، وہ کربلائی ہے۔ خاکِ کربلا اس کی رگ رگ میں سرایت کر جاتی ہے۔ کربلا کا درد آج بھی حیات ہے اور تاقیام قیامت زندہ رہے گا۔ اس درد کے حامل صاحبانِ درد کہلاتے ہیں۔ اس درد کا نصیب ہونا بڑے نصیب کی بات ہے۔ ڈاکٹر فرحت عباس اسی کے پیش نظر منادی کر رہے ہیں:
؎تم اسے لے چلو لبِ کوثر
اے فرشتو! یہ کربلائی ہے
راول دیس کے شعری منظرنامے پر سرگرم رہنے والے ڈاکٹر فرحت عباس کا قرینہ سوا ہے۔ وہ مالکِ علی الاطلاق کی تابع فرمانی اور شکر گزاری میں شعر کہتے ہیں تو لفظ لفظ سے سرشاری، وارفتگی اور بے تکلفی قرطاس پہ شبنم کی بوندوں کی مثل ٹپکتی ہے اور دل کی فضا کو خوشگوار کرتی چلی جاتی ہے۔ خدا سے مکالمے کے دوران وہ کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ خالصتاََ خالق اور مخلوق کا تعلق ہے، بیچ میں کسی اور شے کی گنجائش نہیں۔ وہ مالک جو بے حساب دیتا ہے، اس سے حساب کیسا؟ خالقِ کائنات کی عطا دَر عطا پہ شکر گزاری کا ایک انداز دیکھئے:
؎مجھے رب سے بہت کچھ مل رہا ہے
کہاں اتنا زیادہ طے ہوا تھا؟
خالقِ کائنات سرورِ کائناتؐ کی طرف متوجہ ہے اور مخلوق سے خواہاں ہے کہ وہ بھی محبوبِ خدا کی جانب رخ کیے رکھے۔ ڈاکٹر فرحت عباس خالق کی آواز میں آواز ملا کر درودوسلام پڑھنے کے آرزو مند ہیں۔ اس عمل میں خالق مخلوق کو اپنا شریک ٹھہرا رہا ہے۔ اس باب میں لاشریک کا مخلوق کو شریک ٹھہرانا عین منشائے ایزدی ہے۔ خالق کے محبوبؐ مخلوق کے محبوب بھی تو ہیں اور یہ مخلوق محبوبؐ پہ فدا جاتی ہے۔ ڈاکٹر فرحت عباس بھی غلام ابن غلام ابن غلام ہو جانا چاہتے ہیں کہ سوئے حشر اسی نام سے پکارا جائے:
ہر ایک شام سے پہلے، ہر ایک شام کے بعد
درود پڑھتا رہوں آپؐ پر مدام مدام
حضورؐ اتنی سی خواہش ہے حشر میں میری
مجھے بلائیں، بلا کر کہیں غلام غلام
یہاں اور وہاں، ہر دو جہانوں میں محبوب کا سنگ طلب کیا جاتا ہے۔ دارِ فنا میں جس کی نسبت عطا ہو، جس کا عشق میسر آئے، جس کا ذکر ملے، جس کی یاد عطا ہو، دارِ بقا میں بھی اسی کی طلب رہتی ہے۔ اِس جہاں میں جو ذاتِ علیؓ اور ذکرِ علیؓ میں محو ہو، اُس جہاں میں بھی وہ یہی نسبت، یہی چاہت طلب کرتا ہے۔ یہ خوش بختی ہے کہ ہر دو جہانوں میں محب کو محبوب میسر آ جائے۔ ڈاکٹر فرحت عباس کے ہاں یہ منظر دیکھئے:
؎محشر میں جب بھی پوچھا گیا کون ہے امام
لوں گا ادب کے ساتھ میں حضرت علیؓ کا نام
ڈاکٹر فرحت عباس کا حسنِ بیان ان کی شاعری و نثر سے پوری آب و تاب کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔ وہ حسنِ بیان میں حسنِ سلوک کے داعی ہیں۔ اس لیے کہ اس مختصر حیات میں نفرت کی گنجائش ہی کہاں ہے؟ اس قدر مہلت نہیں کہ جذبہء انتقام اور جذبہ ء نفرت کو پالا پوسا جائے۔ مختصر عرصہ ء حیات میںمحبت کو عام کرنا چاہئے تاکہ فاصلے مٹ جائیں اور قربت دَر آئے۔ چار دن کی زندگی میں محبت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔مخلوقِ خدا کے درمیاں خلیج کو ختم کرنے کی سعی کرنی چاہئے اور تمام امتیازات کو بالائے طاق رکھ کر سب کوآپس میں جوڑنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ لوگوں کو فرقوں اور تفرقوں میں تقسیم کرنے کے بجائے، ان میں محبت تقسیم کرنی چاہئے۔ ڈاکٹر فرحت عباس نے کیا خوب کہا ہے:
؎گر ہو سکے تو ایک ہی بات کیجیے
حسنِ سلوک شہر میں خیرات کیجیے
ڈاکٹر فرحت عباس کی یہ مختصر مگر جامع کہانی انھی کی زبانی سنیے کہ جب انھوں نے اپنی ذات کا احاطہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا: ’’نامکمل تھا نامکمل ہوں، یہ مکمل مِری کہانی ہے‘‘۔ سہل ممتنع میں یہ اعتراف قابلِ داد و تحسین ہے۔ یہ اعتراف بلاشبہ منزل کے قریں ہونے کا غماز ہے جس پہ ہدیہ ء تہنیت پیش کیا جاتا ہے۔