افطاری کی رونقیں بچوں سے دوبالا

عیشتہ الراضیہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
ماہ رمضان کی ابتداء کیساتھ جہاں گھر کے سبھی افراد روزے رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں،افطار اور سحری کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے، وہیںبچے بھی فرمائش کرتے پائے جاتے ہیں کہ ہم نے بھی روزہ رکھنا ہے۔ سحری و افطاری کی رونقوں سے بچے سب سے زیادہ  لطف اندوز ہوتے ہیں۔ افطاری میں اپنی من پسندیدہ ڈشز کی فرمائشوں کا دور چل پڑتا ہے۔  بچے ہر روز  افطاردسترخوان پر موجود ڈشز کی گنتی کرتے ہیں کہ آج امی نے کتنی  چیزیں بنائی ہیں۔ تین سے چار ڈشز سے کم پر تویہ بلکل بھی اکتفاء نہیں کرتے۔ ہمارے زمانے میں پکوڑے، دہی بھلے اور فروٹ چاٹ افطاری کے لازمی لوازمات تھے ، لیکن آج کی ننھی نسل مائوں سے نگٹس، سموسیاں، ڈرم اسٹک، میکرونی، لزانیا، اور سپیگٹی کی فرمائش کرتے ہیں۔ لال شربت کی جگہ بچے  دوسرے رنگ برنگے جوسز  کی فرمائش کرتے ہیں البتہ بڑے جب تک لال شربت سے افطار نہ کر لیں ان کی پیاس نہیں بجھتی ۔ 
ان ننھے پھولوں کو افطاری کی تیاری کے لیے مائوں کی مدد کرنے میں خوب لطف و سرورملتا ہے۔ کچھ نہ سہی تو شربت تو یہ خود ہی بنانے پر بضد رہتے ہیں۔جبکہ اکثر بھائی بہن مل کر  فروٹ چاٹ بنانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ افطار ڈنر ہو یا محلے میں افطاری بانٹنی ہو بچے ان سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ افطار سے کچھ دیر قبل اگر گھر سے باہر ایک نظر ڈالی جائے تو اکثر سڑک یا گلی میں ہاتھوں میں افطاری کی ٹرے تھامے بچے مسجد یا کسی ہمسائے کے گھر کے باہر کھڑے نظر آتے ہیں۔ یا اگر گھر کا کوئی بڑا فرد افطاری بانٹنے محلے یا مسجد کا رخ کرے تو اپنے ہمراہ گھر کے چھوٹے بچے کو بھی لے جاتا ہے۔ اس کے پیچھے مقصد یہی ہے کہ بچے میں مل بانٹ کر کھانے کا ظرف پیدا ہو،اور اپنے سے کم حیثیت افراد کو ہمیشہ یاد رکھے۔
رمضان المبارک میں بچے چڑی روزہ رکھنے کے لیے بھی خاصے پر جوش نظر آتے ہیں۔ چونکہ بچے زندگی کا ہر کام بڑوں کی طرح انجام دینا چاہتے ہیں اور انھیں یہ ہر گز پسند نہیں کہ لوگ انھیں چھوٹا سمجھ کر کسی کام میں پیچھے کریں لہذا یہ رمضان المبارک میں بھی روزہ رکھنے پر مصر نظر آتے ہیں۔
ان کی اس معصوم خواہش کا احترام کرتے ہوئے والدین ابتداء میں ان سے چڑی روزہ یعنی آدھے دن کا روزہ رکھواتے ہیں۔ یہ اس لیے تاکہ انھیں روزہ رکھنے کا عادی بنایا جائے۔ اس طرح ان میں روزہ رکھ کر بھوک اورپیاس پر صبر کرنے کی عادت ڈالی جاتی ہے۔ چھوٹے بچوں کے چڑی روزہ پر بڑے انہیں اکثر ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے اپنا روزہ کہاں رکھا ہے جس کے جواب میں معصومیت سے ان کا جواب آتاہے کہ’’ فریج میں رکھا ہوا ہے‘‘۔شاید انہیں لگتا ہے کہ روزہ کوئی چیز ہے جسے کہیں رکھا جاتا ہے۔
آہستہ آہستہ جب انہیں چڑی روزہ کے لیے سحری میں اٹھنے کی عادت ہو جائے اور آسانی کیساتھ آدھے دن کا روزہ رکھ لیں تو گھر کے بڑوں کو خیال آنے لگتا ہے کہ اب اس کی روزہ کشائی بھی ہو جانی چاہیے۔ روزہ کشائی بچے کے پہلے روزہ رکھنے کی خوشی میںایک رسم ہے ۔جس میں افطاری کاخاص اہتمام کی جاتا ہے، بچہ نیا لباس زیب تن کرتا ہے۔ افطاری سے قبل روزہ دار بچے کو پھولوں کی مالا پہنا ئی جاتی ہے اور بچے کی دین میں ثابت قدمی، دنیا و آخرت میں کامیابی کی دعاء کی جاتی ہے۔ اس دن افطاری کے لوازمات میں بھی خاص اہتمام کیا جاتا ہے اور محلے اور قریبی مسجد میں بانٹی جاتی ہے۔
دین اسلام میں یوں تو روزہ بالغ بچے پر فرض ہے لیکن بچے کی روزہ رکھنے کی لگن اور خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے اکثر والدین سات سال   کی عمر میں اسے پہلا روزہ رکھواتے ہیں جس کی روزہ کشائی رسم ادا کی جاتی ہے۔ اس کے بعد بچہ ہمت و شوق کے مطابق روزہ رکھنا شروع ہو جاتا ہے۔ یعنی کبھی ہفتے میں ایک دن 
کبھی ہفتے میںدو دن ،یہ ٹریننگ ہے، تاکہ آہستہ آہستہ بچہ اس قابل ہو جائے کہ وہ روزہ فرض ہونے کی عمر تک جب پہنچے تو وہ آسانی سے رمضان المبارک کے تمام روزے رکھ سکے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہانی
جیسی کرنی ویسی بھرنی!

محسن ایک بہت ہی ذہین بچہ تھا۔کلاس کے ذہین ترین طالب علموں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔وہ چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔محسن کو اللہ تعالیٰ نے ذہن تو اچھا دیا تھا جس کی وجہ سے وہ بہت مغرور ہوگیا تھا۔ بدتمیزی کرنے لگ گیا تھا اس کے علاوہ وہ بڑوں کا ادب نہیں کرتا تھا اپنے اساتذہ کو بھی بہت تنگ کرنے لگا خاص کر ان کی نقالی کرنااور ان پر طرح طرح کی آوازیں کسنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اس کی ان حرکتوں کا اسکے گھر والوں کو بھی علم تھا اور وہ اسے بہت سمجھاتے تھے کہ کسی کی یوں نقالی نہیں کرتے اور اپنے سے بڑوں سے بد تمیزی سے پیش آنا بہت بری بات ہے ،یوں کرنے سے تمہارا کل بھی محفوظ نہیں رہ سکتا لیکن محسن اپنی ان بری عادات سے پیچھے نہ ہٹا۔ اسی طرح وقت گزرتا گیا اس نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔اسی سلسلے میں اس نے ایک ہوٹل میں دوستوں کو پارٹی دی۔وہ پارٹی میں شرکت کے لئے اپنی موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ ایک تیز رفتار کار نے اسے ٹکر ماری۔کار ڈرائیور تو وہاں سے رفو چکر ہو گیا،البتہ محسن وہیں کراہتا رہا۔کچھ لوگوں نے انسانی ہمدردی کے تحت اسے ہسپتال پہنچایا۔وہاں پر اس کے گھر والوں کو بلایا گیا۔کافی خون بہہ جانے کی وجہ سے اس پر نقاہت اور کمزوری طاری تھی۔اس کی ٹانگوں پر کافی زخم آئے تھے جس کی وجہ سے اس کی دائیں ٹانگ کاٹنی پڑی۔
کافی عرصے تک وہ بستر سے لگا رہا۔اس کے دوست عیادت کے لئے اس کے پاس آئے۔رفتہ رفتہ وہ بے ساکھیوں کے سہارے چلنے کے قابل ہوا تو اب اس نے پڑھائی کو خیر آباد کہہ کر نوکری کی تلاش شروع کی،لیکن ایک ٹانگ سے معذور شخص کو کیا نوکری مل سکتی تھی۔آخر اسے ایک پرائمری سکول میں سکول میں ٹیچر کی نوکری مل گئی۔جب وہ لنگڑا کر کلاس میں داخل ہوتا تو چند شریر بچے اس کی نقل اتارتے اور جب وہ ان کی طرف دیکھتا تو وہ معصوم بن جاتے۔ان بچوں کو دیکھ کر اسے اپنا ماضی یاد آ جاتااور سوچتا کہ کاش!میں اپنے اساتذہ کرام کا ادب کرتا تو شاید مجھے یہ دن ہی نہ دیکھنے پڑتے۔اب صرف وہ تھا اور اس کا پچھتاوا۔
(ملک عبدالرحمٰن۔ باغبان پورہ لاہور)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام کیپشن
شاہین
کرن
عبد الرحمن بلال ،کلاس 1 ،بیکن ہائوس سکول ویلنشیا برانچ لاہور

عبد الہادی ،بستی ملانہ
عدن برلاس ،ابیہا برلاس،اسلام آباد
اویس علی بھائی کے ہمراہ
حماد علی دھنوٹ
محمد ابراہیم رضا،دھنوٹ

ای پیپر دی نیشن