ایسا کبھی ہوا نہیں کہ دنیا سے شر مکمل طورپر ختم ہوگیا ہو۔انسان کے اندر شر کی قوتیں خیر کی طاقتوں سے ہمیشہ نبردآزما رہتی ہیں ۔آپ اسے حضرت انسان کی فطرت کہہ سکتے ہیں ۔ان شرانگیز طاقتوں کو آپ نیگیٹیو فورسز کا عنوان دے سکتے ہیں ۔قرآن انہیں شیطانی طاقتوں کا نام دیتا ہے ۔ہر منفی سوچ ،ہر تخریبی تصور ہر انسان دشمن منصوبہ ،ہرابلیسی حربہ چاہے اس کا محل وقوع انسان کی اپنی ذات ہو ،اس کا ماحول ہو،ملک ہویاسرزمین ہو ،شیطان ہی کی کارستانی قرار پائے گی۔ہوس لالچ،ظلم ،استبداد ،بدعنوانی ،بدامنی،بد عہدی ،بے وفائی ،دھوکہ دہی ،نوسر بازی ،بزدلی ،منافقت،ہیجان انگیزی ،خیانت،جھوٹ ،فراڈ ،بے ادبی ،فریب کاری ،بعض وعناد،انا پرستی ،چوری ،ڈاکہ زنی ،قتل وغارت اور وحشت وبربریت یہ تمام وہ بیماریاں ہیں جنہیں شیطان نے ایجاد کیا ہے اور وہ کمال ہوشیاری کیساتھ انسانی دل ودماغ میں ان کی پیوندکاری کرتا ہے اور انسان کو شرکے راستے پر ڈال دیتا ہے ۔تشکک اور بے یقینی ،مایوسی اور غفلت جیسے ہتھیاروں سے مسلح ہوکر شیطان جب حملہ آور ہوتا ہے تو بڑے بڑے پختہ عزم انسان ریت کا ڈھیر ہوجاتے ہیں ۔شیطان کا تصور ہر مذہب اور عقیدے کے پیروکاروں میں اپنے اپنے ناموں اور حوالوں سے موجود ہے ۔قرآن نے اس تصور کو بڑے بلیغ پیرائے میں بیان فرمایا ہے ۔’’بے شک شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن سمجھو‘‘ حدیث نبوی ہے :’’شیطانی وسوسے تمہارے وجود میں خون کی طرح گردش کرتے ہیں ‘‘ لیکن فطرت نے انسان کو شیطان کے مقابلے میں تنہاء نہیں چھوڑا ،یہ ہرگز نہیں کہ انسان شیطان کے مقابلے میں بے بس پیدا کیا گیا ہے ۔قرآن نے احسن تقویم کا ٹائٹل ہی انسان کو اسی لئے عطا کیا ہے کہ وہ واحد جاندار ہے جو اچھائی اور برائی میں تمیز کرسکتا ہے ۔ جس طرح شیطان منفی ہتھکنڈوں سے مسلح ہے اسی سطح انسان اپنے ضمیر کی زبردست طاقت سے مز ّین ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائے آفرینش سے لیکر آج تک شر اور خیر باہم نبردآزما رہتے ہیں ۔ایسا کبھی ،کسی دور میں نہیں ہوا کہ شر غالب آجائے اور خیر کی قوت مفتوح ہوجائے ۔ایسا ہوتا تو انسانیت کا قافلہ بیچ راہ کے فنا ہوچکا ہوتا ۔آج ساڑھے چھ ارب انسانوں کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ خیر کی طاقتیں مفقودنہیں بلکہ موجود ہیں ۔بقول اقبالؒ:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی
جب ضمیر سوجاتے ہیں تو الہامی کتب ہی انہیں جگاسکتی ہیں:آپ اپنے گھرسے سکیورٹی آلارم کو ہٹا دیجئے یا اس کی تاریں کھینچ دیں تو پھر واردات کرنے والوں کو کوئی خطرہ نہیں رہتا ۔نہ آلارم بجے گا نہ آپ جاگیں گے۔نہ اپنے مال واسباب کا تحفظ کرسکیں گے ۔نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان کو اگر مسلسل ایک ماہ تک کسی واقعہ پر ضمیر نہ جھنجھوڑے تو سمجھئے کہ انسان کا ضمیر سورہا ہے ۔یعنی الارم کا کنکشن کٹ گیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ضمیر کبھی نہیں سوتا ۔دراصل انسان اپنے کان بند کرلیتا ہے ۔طیش اور عیش انسانی دل ودماغ کی دوایسی حالتیں ہیں جن میں مبتلا ہوکر انسان اپنے جاگے ہوئے ضمیر کو بار بار سلانے کی پریکٹس کرتا ہے ۔شیطان کی جیت کا یہ عجب منظر ہوتا ہے ۔یہ وہ حالت ہوتی ہے کہ انسان خود اپنے آپ کو ماررہا ہوتا ہے ۔وہ اس قدر شقی القلب ہوجاتا ہے کہ اپنی زندگی کے سب سے بڑے محافظ یعنی ضمیر کو اپنے ہاتھوں سے بے بس کردیتا ہے ۔ایسی حالت سے نکلنے کیلئے ہی عقیدے اور ایمان کی ضرورت پڑتی ہے ۔خالق کائنات نے مردہ ضمیر انسانوں کو جگانے اور واپس فطرت کی طرف لوٹانے کیلئے اپنے پسندیدہ انسانوں یعنی پیغمبروں کے ذریعے زندگی کی گائیڈ بکس اتاری ہیں ۔!ارشادرباّنی ہے :مذہب ،دین اور ایمان یہ کوئی ایسی غیر ضروری یا نمائشی اشیاء نہیں ہیں جنہیں انسانی زندگی کو محض زیبا بنانے کیلئے اتارا گیا ہو ۔زندگی کی گاڑی کو کامیابی کی پٹڑی سے نہ اترنے دینا اور متعین وقت میں منزل تک پہنچا دینے کیلئے ضمیر کافی ہے لیکن چونکہ انسان اس آلارم کو جان بوجھ کر سلادیتا ہے اس لئے اسے واپس پٹڑی پر لانے کیلئے الہامی ہدایات کی ضرورت ہوتی ہے ۔جس طرح کار بنانے والے کو علم ہے کہ کار کا مینوئل کیا ہوگا ۔اسی طرح انسان کے خالق کو علم ہے کہ انسان کی کامیابی کیلئے کون کون سی حدود وقیود اور کس طرح کی احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہوگی ۔خالق کائنات نے بڑی محنت ،انتہائی محبت اور بے پناہ چاہت کیساتھ وحی کے ذریعے ہر امت ہر گروہ کیلئے ہدایات نازل فرمادی ہیں ۔ارشاد رباّنی ہے۔’’اور ہم نے بھیجے ہر اُمّت میں رسول ؐتا کہ میری بندگی کرو اور طاغوث سے بچ کر رہو۔پھر ان میں کچھ نے ہدایت پائی اور کچھ گمراہی پر قائم رہے‘‘انسانیت کا اہم مسئلہ :انسانیت کے سارے مسائل کی جڑ الہامی تعلیمات سے دوری ہے ۔الہامی تعلیمات سے گریز نے ہی آج کے انسان کو شیطانی قوتوں کے آگے بے بس بناکر رکھ دیا ہے ۔ سائنس اور سائنسی طرز فکر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس نے انسانی ذہنوں کو شک میں مبتلا کردیا ہے ۔جب تک کسی معاملے میں انسان خود تجربات کرکے کسی نتیجے تک نہ پہنے وہ معاملے کی صداقت اور حقانیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتا ۔انسانی ذہنوں نے وحی اور الہام کو بھی سائنس کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے انسانی ذہن محسوسات تک محدود بنایا گیا ہے ۔اس لئے وہ اللہ ،رسولﷺ اور کتاب اللہ ،جیسے الہامی حقائق کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتا ہے ۔جب کہ الہامی ہدایات کا پہلا تقاضا یہی ہے کہ ان کی حقانیت میںرتی برابر شک نہ کیا جائے ۔حکم ہوتا ہے۔’’یہ وہ (قرآن) وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں‘‘گو کہ اب مابعد طبیعات کے علم پر بھی بہت کام ہورہا ہے اور امید رکھنی چاہیے کہ انسانیت اپنی اجتماعی فطرتی بصیرت کے ذریعے اپنے خالق حقیقی کو جلد پہچان لے گی اور الہامی کتابوں اور ان کے ذریعے پہنچنے والی کائناتی سچائیوں پر بحیثیت مجموعی ایمان لے آئے گی لیکن قافلہ انسانی ہنوز شبہات کے اندھیروں میں غلطاں وپیچاںہے ۔
بظاہر انسان نے ستاروں پر کمندیں ڈال لی ہیں ،سورچ کی روشنی کو گرفتار کرلیا ہے ،کائنات کے ظواہر کو ایک ’’مٹھی ‘‘میں سمو دیا ہے ،کمپیوٹر سے آگے نینو ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔لیکن اس سب علم ودانش ،تحقیق اور تخلیق کے باوجود لائف مینوئل (الہامی ہدایات)کی سچائی پر ڈگمگاتا ایمان اسے تسخیر کائنات کیلئے یکسوئی مہیا نہیں کررہا ہے ۔اور احسن تقوم کا جو اعزاز فاطر ارض وسما نے عطاء فرمایا ہے انسان ابھی اس اعزاز سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوپارہا ۔قافلہ انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شک وشہبات نے اجتماعی ضمیر مردہ کردیا ہے اور الہامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے اس کے ضمیر کو جگانے والے تمام ذرائع بے اثر ہورہے ہیں ۔آج کی ہر ترقی ایک نئی الجھن کی نشاندہی کرتی ہے ۔ہر ایجاد کسی نئی تباہی کا پیش خیمہ بن رہی ہے ۔!محبان انسانیت کو آگے بڑھ کر رہنمائی کرنی چاہیے اور الہامی قوائد وضوابط کی تشہیر کرکے تیز رفتار گاڑی کو نیکی اور راست روی کی پٹڑی سے سرکنے نہیں دینا چاہیے ۔ورنہ طیش اور عیش ،یاسیت اور جہالت کی شیطانی قوتیں اس خوبصورت زمین کو جہنم بنادیں گی۔! (بقول علامہ اقبال)
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کرنہ سکا