سات اپریل کو سانحہ ’’گیاری‘‘ کی برسی منائی جاتی ہے کیونکہ دس برس قبل سات اپریل 2012 کو سیاچن کے مقام ’’گیاری‘‘ میں برفانی تودہ گرنے سے پاک فوج کے 140 افسر اور جوان ہزاروں ٹن برف اوڑھ کر ابدی نیند سو گئے۔ ان کے یومِ شہادت پر قوم کے ہر فرد نے ان جاں نثاروں کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ یوں بھی افواجِ پاکستان نے ہمیشہ ہی وطن کی خدمت کے لئے اپنے لہو سے ایسے چراغ روشن کیے ہیں جن کی روشنی آئندہ نسلوں کے لئے بھی مشعلِ راہ ثابت ہو گی۔
سانحہ گیاری کے دس برس مکمل ہونے پر مبصرین نے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے ایک سے زائد مرتبہ بھارت کو پیش کش کی جا چکی ہے کہ سیاچن گلیشیئر سے دونوں ممالک اپنی افواج واپس بلا لیں تا کہ نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے بلکہ سیاچن پر ہونے والے اخراجات دونوں ملک اپنے عوام کی فلاح پر خرچ کر سکیں۔ علاوہ ازیں ماحول کو در پیش خطرات میں بھی کمی آ سکے۔ ماہرین نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ 1984 میں بھارتی فوج نے سیاچن پر اپنا ناجائز تسلط جما لیا تھا جس کے جواب میں پاکستان کو بھی اپنی فوجیں وہاں متعین کرنا پڑیں۔ یوں ہندوستان کے اس ناجائز قبضے کے نتیجے میں نہ صرف دونوں ممالک کے معاشی مسائل پر خاصا بوجھ پڑ رہا ہے بلکہ قابض انڈین آرمی نے گذشتہ 35 برسوں میں اس گلیشئر کو اتنا پراگندہ کر دیا ہے کہ آنے والے برسوں میں پاکستان کی جانب آنے والے پانی پر اس کے اثرات خطرناک حد تک مرتب ہو سکتے ہیں اور مستقبل میں یہ گلیشئر پگھل کر ناقابلِ تصور خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ 2005 میں پاک بھارت حکومتیں اس امر پر متفق ہو چکی تھیں کہ سیاچن سے اپنی افواج واپس بلا لی جائیں۔ تب بھارتی وزیر اعظم ’’منموہن سنگھ‘‘ نے تو باقاعدہ اس امر کا اعلان بھی کیا تھا کہ سیاچن کو ’’پیس پارک‘‘ میں تبدیل کر دیا جائے گا مگر پھر انڈین آرمی نے اس تجویز کو مسترد کر دیا یوں بھارتی فوج کے ویٹو کی وجہ سے یہ معاہدہ پروان نہ چڑھ سکا۔ اس کے بعد بھی پاکستان کی جانب سے ایک سے زائد مرتبہ ایسی پیش کشیں سامنے آئیں۔
خصوصاً سات اپریل 2012 کو سیاچن کے مقام گیاری پر جب برفانی تودہ گرنے سے افواجِ پاکستان کے تقریباً 150 جوان اور افسر شہید ہوئے تو پاک آرمی کی اعلیٰ ترین قیادت کی جانب سے بھی بھارت اور پاکستان کے بیک وقت انخلاء کی تجویز سامنے آئی مگر بھارتی فوج نے تب بھی اس تجویز پر کان نہ دھرے۔ حالانکہ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ سیاچن کے مقام پر انڈین آرمی کا مالی اور جانی نقصان پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے مگر بد قسمتی سے بھارت کی جانب سے ہٹ دھرمی کا رویہ برقرار ہے۔ تبھی تو انڈین ایکسپریس کے سابق چیف ایڈیٹر ’’شیکھر گپتا‘‘ نے سات دسمبر 2013 کو اپنے مضمون ’’نیشنل انٹرسٹ، ڈس آرمنگ کشمیر‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ گذشتہ برسوں میں بھارتی فوج کے پاس خارجہ اور دفاعی پالیسیوں کے حوالے سے ویٹو کا اختیار آ چکا ہے۔ اسی وجہ سے نہ تو کشمیر میں خاطر خواہ بہتری ہو رہی ہے بلکہ سیاچن کا مسئلہ بھی حل نہیں ہو پا رہا‘‘۔اسی ضمن میں مبصرین نے کہا ہے کہ پاکستان کے چند نام نہاد ’’امن پسند‘‘ اکثر جوہری پروگرام کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ حالانکہ کسے علم نہیں کہ بھارتی بالادست طبقات وطنِ عزیز کے حوالے سے کتنے مکروہ عزائم رکھتے ہیں۔ ایسے میں وہ ملکی یا غیر ملکی عناصر جو پاکستانی افواج اور اس کے ایٹمی پروگرام کے خلاف زہر اگلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، ان کے طرزِ عمل کی بابت ہر پاکستانی کے ذہن میں تحفظات پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی حکمرانوں کے عزائم کے حوالے سے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوئے بغیر وطنِ عزیز کی سلامتی کی خاطر ہر ممکن ڈھنگ سے مستعد رہنا دورِ حاضر کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہو گا کہ لیبیا کے قذافی نے اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کی غلطی کی تھی جس کا خمیازہ خود ان کی ذات اور لیبیا کو جس انداز سے بھگتنا پڑا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں‘‘۔
یوں بھی ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہی ہے خصوصاً جب آپکے مخالف بھارتی حکمرانوں جیسے ’’انسان دوست‘‘ اور ’’امن پسند‘‘ ہوں۔ خصوصاً مودی جیسے انتہا پسند اور فرد نے پاکستان کی بابت جو مکروہ رویہ اپنایا ہوا ہے وہ مزید کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ماہرین کے مطابق بھارتی حکمرانوں نے ہر معاملے میں جو دوہرے معیار اپنا رہے ہیں وہ کوئی نئی بات نہیں ۔ مثلاً ایک جانب وہ اٹھتے بیٹھتے سرحد پار سے ہونے والے دہشتگردی کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب داعش جیسی دہشتگرد تنظیم کی معاونت میں وہ دنیا بھر میں دوسرے مقام پر ہیں ۔